Monday 21 May 2012

محدث شہیر امام شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ



محدث شہیر امام شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی 

رحمۃ اللہ علیہ 

از قلم محمد تنزیل الصدیقی الحسینی


تیر ہویں و چودہویں صدی ہجری کے اسلامی ہند میں تین ایسے باکمال جلیل القدر محدثین کرام پیدا ہوئے کہ جن کی خدمات 
حدیث کی وسعت وہَمہ گیری کی وجہ سے ان کانام اور ان کا کام غیر فانی ہوگیا۔
١-السیّدالامام نذیر حسین محدث دہلوی (م ١٣٢٠ھ) جنہوں نے ٦٠ برس دہلی کے سب سے بڑے مسند ِعلمی پر فروکش ہوکر علوم نبوت کے انوار و تجلیات کو عام کیا۔تدریس کی جو ہَمہ گیری ان کا مقدر بنی دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ متاخرین میں سے کوئی اس باب میں ان کا ہمسر نہیں۔
٢-السید نواب صدیق حسن خاں (م١٣٠٧ھ)جن کے دولتِ علم اور وفورِشوق نے طرح طرح سے علم حدیث کے نشر وشیوع کی خدمت انجام دی۔
سید نذیر حسین علیہ الرحمہ تدریس کی ہَمہ گیری کی وجہ سے تصنیف وتالیف کی طرف زیادہ متوجہ نہ ہوسکے اور نواب صدیق حسن خاں ریاستی امور کی انجام دہی کی وجہ سے تدریس کی ذمہ داریاں نہ نبھا سکے۔
٣-اسلامی ہند کے جس فرزند جلیل اور عالم نبیل نے بیک وقت تدریس، تصنیف، نشر و اشاعت اور نوجوان علماء کی عملی تربیت کی طرف عنان توجہ مبذول فرمائی وہ محدث فاضل ابو الطیب شمس الحق رحمہ اﷲ کی ذات گرامی ہے۔اسلامی ہند کی تین از دہ سالہ تاریخ کی یہ اولین مثال ہے کہ کسی محدث نے یک بیک ان چار ذرائع پر عمل پیرا ہوکر علم حدیث کی نشر و اشاعت کی یہ ذمہ داری نبھائی۔
مولانا ابو الحسنات عبد الشکور حنفی ندوی نے ''ہندوستان کی قدیم اسلامی درسگاہیں''میں لکھا ہے اور بجا طور پر کہ
''مولانا شمس الحق محدث وہ مایہ ناز ہستی ہے کہ جس پر ہندوستان جس قدر چاہے فخر کرسکتا ہے۔'' ص:٤٧
محدث ابو الطیب شمس الحق عظیم آباد پٹنہ کے محلہ رمنہ میں ٢٧ ذیقعد ١٢٧٣ھ /١٩ جولائی ١٨٥٧ء کو پیدا ہوئے ۔ وہ خانوادئہ صدیقی کے درّ درخشاں تھے ۔مختصر سلسلہ نسب درج ذیل ہے:
''ابو الطیب محمد شمس الحق بن امیر علی بن مقصود علی بن غلام حیدر بن ہدایت اللہ بن محمد زاہد بن نور محمد بن علاء الدین ۔''
 محدث عظیم آبادی رحمہ اللہ اپنی کتابوں میں عموماً اپنے والد ، دادا اور پردادا کے اسمائے گرامی بایں طور لکھا کرتے تھے :
'' العبد الضعیف ابو الطیب محمد المشتھر بشمس الحق بن امیر بن علی بن حیدر الصدیقی العظیم آبادی ۔'' ملاحظہ ہو : غایة المقصود :١/٢، التعلیق المغنی : ١/٢، اعلام أھل العصر :٢
غالباً شیعیت کی اشتباہ سے گریز کے لیے مرکب کی بجائے مفرد نام لکھنا پسند کرتے ہونگے ۔
محدث عظیم آبادی کے پردادا مولاناغلام حیدر بارہویں و تیرہویں صدی ہجری کے جید عالم و فقیہ تھے۔ انہوں نے عظیم آباد و بنارس کے علماء سے کسبِ علم کیا۔عظیم آباد میں اپنے دور کے نہایت صاحبِ ثروت و ذی علم افراد میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ہرداس بگہہ، گذری و رمنہ میں ان کے عالیشان مکانات تھے۔موضع مخدوم پور کا بھی بہت بڑا حصہ ان کی ملکیت تھا۔
محدث ڈیانوی کے والد گرامی شیخ امیر علی کا شمار بھی ذی وجاہت و صاحبِ ثروت رئوسائے عظیم آباد میں ہوتا تھا۔١٢٤٣ھ میں پیدا ہوئے ۔ فارسی کے اسباق اپنے بزرگوں سے پڑھے ۔ربیع الاول ١٢٦٣ھ میں ان کا نکاح ڈیانواں کے رئیسِ اعظم مولانا گوہر علی کی اکلوتی صاحبزادی سے ہوا ۔ شادی کے بعد انہوں نے رمنہ میں شیخ عبد الحکیم شیخ پوری، مولانا مسیح اللہ عظیم آبادی اور مولانا ابو الحسن منطقی عظیم آبادی سے شرح جامی ، شرح وقایہ اور دیگر عربی کتب پڑھیں۔یہی وجہ تھی کہ انہیں دینی مسائل پر اچھی سوجھ بوجھ حاصل ہوگئی تھی ۔ وہ طبعاً نہایت شریف اور منکسر المزاج تھے ۔ ١٢٨٤ھ میں رمنہ میں وفات پائی اور ہرداس بگہہ میں مدفون ہوئے ۔
محدث ڈیانوی کی والدہ محترمہ ماہِ صفر ١٢٤٩ھ میں بمقام رمنہ پیدا ہوئیں۔سنِ شعور کو پہنچیں تو منشی بشارت کریم نے انہیں صوم و صلوةٰ اور بعض دینی مسائل کی تعلیم دی ،قرآنِ کریم کی مختلف سورتیں اور ادعیہ ماثورہ یاد کروائیں۔نہایت نیک سیرت اور پاکیزہ اطوار خاتون تھیں۔ خشیّت الٰہی ان پر ازحد غالب رہتی تھی۔ فرائض کی ادائیگی پرقناعت نہ کرتیں بلکہ کثرت سے نفلی نمازیں پڑھتیں اور نفلی روزے رکھتی تھیں۔ اعتکاف و قیام رمضان کا بھی خصوصی اہتمام فرمایا کرتی تھیں۔ روزانہ تین پارے تلاوت کامعمول تھا، رمضان المبارک میں دس پارے روزانہ پڑھنے کا معمول تھا۔اتباعِ سنّت کی گویا حریص تھیں۔ توحید کی حقیقت اور شاہراہِ سنت سے واقف ہوجانے کے بعدہر طرح کے غیرشرعی امور سے کنارہ کرلیا تھا ۔ خاندان اور اطراف کی خواتین کی اصلاح کے لیے بھی کوشاں رہتیں۔ انہیں غلط عقائد سے متنبہ کرتیں اور شرعی ممنوعات سے باز رہنے کی تلقین فرماتیں۔١٣١٢ھ میں اپنے افرادِ خاندان کے ساتھ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی ۔ انہوں نے طویل عمر پائی اور للّٰہیت و تقویٰ شعاری کی بہترین مثال قائم کی ۔
محدث عظیم آبادی کے نانا بزرگوار مولانا گوہر علی صدیقی سخاوت وفیاضی میں مشہورِ انام تھے حتیٰ کہ شیخ الکل سید نذیر حسین ممدوح کو ''تاج الاسخیائ''اور خانوادئہ مرجع افادہ کو ''مجمع افتادگان'' کہا کرتے تھے ۔ مولانا گوہر علی ١٢١٣ھ میں ڈیانواں میں پیدا ہوئے ۔ تحصیلِ علم کے لیے بیتھو ( ضلع گیا) اور بعض دیگر مقامات کا سفرکیا۔ فارسی میں مکمل دستگاہ حاصل کرنے کے بعد عظیم آباد پٹنہ میں مولانا مظہر علی عظیم آبادی ، مولانا ابو الحسن منطقی سندھی ثم عظیم آبادی ، مولانا جان علی عظیم آبادی اور مولانا ابراہیم حسین عظیم آبادی سے کتبِ درسیہ کی تکمیل کی ۔مولانا گوہر علی نے غربت سے امارت کا سفر کیا تھا ، فارغ البال ہونے کے بعد بھی ان کی طبیعت میں غرور اور کسی قسم کی نخوت پیدا نہیں ہوئی یہی وجہ تھی کہ وہ غریبوں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے تھے ۔ان کا درِ دولت سخاوت و فیاضی کے لیے پورے بہار میں مشہور تھا ۔ نہایت عالی کردار اور حلم وکرم میں اپنی مثال آپ تھے ۔ علم اور علماء کے از حد قدرداں تھے یہی وجہ تھی کہ علماء کی ایک بڑی تعداد نے ان کے پاس مستقل بودو باش اختیار کرلی تھی ، ان علماء کے پاس طلابِ علم کی ایک مخصوص تعداد ہمیشہ کسبِ علم کرتی رہی ،عام طور پر باہر سے آئے طلباء کی تعداد سو تک جاپہنچتی تھی ۔یہ طلباء نہ صرف ان علماء سے اخذِ علم کرتے بلکہ مولانا گوہر علی کے فیض علم سے بھی مستفید ہوتے۔اس طرح گویا ڈیانواں میں ایک مدرسہ قائم ہوگیا تھا جس کے تمام تر اخراجات کے کفیل مولانا گوہر علی تھے ۔ ان کو نایاب کتابیں جمع کرنے کا بہت شوق تھا یہی وجہ تھی کہ ان کے کتب خانے میں قلمی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا تھا ۔ ١٩ جمادی الاول ١٢٧٨ھ کو رحلت فرمائی اور ڈیانواں میں مدفون ہوئے ۔
محدث ابو الطیب شمس الحق پانچ برس کی عمر میں نانا کی وفات کے بعد اپنے والدین کے ساتھ مستقل طور پر ڈیانواں ہی میں سکونت پذیر ہوگئے تھے ،یہیں ان کی مکتب خوانی کا آغاز ہوا ۔ رسم بسم اﷲ سید احمد شہید رائے بریلوی رحمہ اﷲ علیہ کے شرف بیعت سے مفتخراور شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی کے حلقہ تلامذہ کے ایک اہم رکن مولانا محمد ابراہیم نگر نہسوی نے کرائی۔ابھی کسب علم کی یہ منزلیں جاری ہی تھیں کہ والد گرامی نے ١٢٨٤ھ میں داغِ مفارقت دیا ،اس وقت عمر عزیز نے صرف گیارہ بہاریں دیکھی تھیں۔
ابتدائی درسیات پڑھ لینے کے بعد ڈیانواں ہی میں مولانا لطف العلی بہاری سے کتب متوسطات پڑھیں،مولانا لطف العلی بہاری اپنے زمانے کے جید عالم دین اور مسلک و عقیدہ کے اعتبار سے سلفی المشرف تھے ،اسی اثناء میں اپنے ماموں مولانا نور احمد ڈیانوی سے بھی استفادہ کرتے رہے ، مولانا نور احمد بھی تفقہ فی الدین میں وسیع النظر عالم دین تھے اور شیخ الکل سید نذیر حسین کے فیض یافتہ۔
محرم ١٢٩٢ھ میں اکتسابِ علم کے لیے لکھنؤتشریف لے گئے جہاں مولانا فضل اﷲ لکھنؤی سے کتب معقولات کا درس لیا۔٢٦ محرم ١٢٩٣ھ کو علامہ کبیر قاضی بشیر الدین قنوجی کی خدمت میں حاضر ہوئے یہاں ایک برس سے کچھ زیادہ قیام کرنے کے بعد ربیع الاول ١٢٩٤ھ کو ڈیانواں واپس آئے اور پھر دوبارہ ٢٠ جمادی الاول ١٢٩٤ھ کو ممدوح کی خدمت میں مراد آباد پہنچے۔قاضی صاحب کی خدمت میں رہ کر کتبِ درسیہ کی تکمیل کی اور کتبِ احادیث پڑھ کر سند و اجازہ حاصل کیا۔
محرم ١٢٩٥ھ کو دہلی میں السیّد الامام میاں نذیر حسین کی بارگاہِ علم وفضل پر دستک دی اور ایک برس تک کتب احادیث بضبط و اتقان پڑھیں اور سند حدیث لے کر واپس ہوئے۔ ڈیانواں واپس آنے کے بعد درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں ہَمہ تن مشغول ہوئے مگر ١٣٠٢ھ میں حضرت میاں نذیر حسین کے پاس دوبارہ دہلی تشریف لے گئے تقریباًڈیڑھ سال تک حضرت شیخ الکل کی صحبت بابرکت سے مستفید ہونے کے بعد سید نذیر حسین سے دوبارہ سند لے کر ١٣٠٣ھ میں رخصت ہوئے۔دہلی کے اس دوسرے سفر سے واپسی میں یمن کے رفیع المنزلت عالم دین عالی قدر محدث اور وسیع النظر فقیہ شیخ حسین بن محسن یمانی انصاری سے بھی مستفید ہوئے اور کتب حدیث کی عام اجازت حاصل کی۔
اس بار ڈیانواں آکر محدث شمس الحق ترویج اقامت دین،فروغ عمل بالحدیث، اشاعتِ کتاب و سنت اور دفاع مسلک سلف کے لیے مستعد ہوگئے۔تصنیف و تالیف اور تدریس و تذکیر کے ذریعے اپنی مساعی جمیلہ کا آغاز فرمایااور اپنی بے لوث ومخلص کوششوں سے جلد ہی اس مقام پر پہنچ گئے کہ آپ کی ذات جہودِ نصرة الحق اور اشاعت علوم دین کے ضمن میں بے انتہا مقبول اور عزیز تر خیال کی جانے لگی ۔
١٣١١ھ میں فریضۂ حج کی ادائیگی سے مشرف ہوئے۔ حجاز مقدس میں زیارت حرمین شریفین کے علاوہ متعدد نوابغ عصر سے مستفیدہونے کا موقع ملا اور ایک کثیر تعداد نے محدث ڈیانوی  کے خرمن علم سے خود کو منسلک کیا ۔جن علماء و مشائخ سے آپ کو سند حدیث کی عام اجازت مرحمت ہوئی ان میں حسبِ ذیل علمائے ذِی اکرام شامل ہیں:
٭ مشہورِ زمانہ تفسیر ''روح المعانی '' کے مصنفِ شہیر امام شہاب الدین محمود آلوسی المتوفی ١٢٧٠ھ کے صاحبزادئہ گرامی مفتی عراق شیخ خیر الدین ابو البرکات نعمان آلوسی حنفی بغدادی ( م ١٣١٧ھ
٭ علّامۂ نجد شیخ احمد بن ابراہیم بن عیسیٰ شرقی نجدی حنبلی ( م ١٣٢٩ھ 
٭ شیخ عبد اللہ سراج حنفی طائفی ثم مکی کے فرزندِ ارجمند علامہ عبد الرحمان السراج ( م ١٣١٥ھ 
٭ شیخ محمد بن سلیمان حسب اﷲ شافعی مکی الخطیب و المدرس بالمسجد الحرام ( م ١٣٣٥ھ
٭ شیخ احمد بن احمد بن علی المغربی التونسی ثم المکی ( م  ١٣١٤ھ
٭ قاضی عبد العزیز بن صالح مرشد الحنبلی ( م ١٣٢٤ھ
٭ شیخ محمد فالح بن محمد بن عبد اﷲ الظاہری المہناوی المالکی المدنی ( م ١٣٢٨ھ) صاحبِ '' حسن الوفاء لاخوان الصفا
٭ شیخ ابراہیم بن احمد بن سلیمان المغربی ثم المکی
محدث ڈیانوی ایک جلیل القدر محدث تھے ، ان کی زندگی کا روشن پہلو یہ ہے کہ وہ سنت کے عامل اور اتباعِ سنت کے داعی تھے ،انہوں نے اپنی پوری زندگی خدمت حدیث و سنت کی نذر کردی ۔ اپنے اوقاتِ خیر کے کثیر لمحات ،مال و دولت کا کثیر حصہ اور اپنی ہمتوں و حوصلوںکو اسی راہ میں وقف کردیا تھا حتیٰ کہ انہی جہود ومساعی کے ساتھ یوم لقا آگیا اور آپ نے لبیک اللّٰھمّ لبیک کہہ کر جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ 
جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ امام ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی نے بیک وقت چار ذرائع سے علم حدیث کی خدمت انجام دی یعنی:
٭  بذریعہ درس وتدریس کہ جس کے ذریعے طلاب علوم دین کی ایک کثیر تعداد نے آپ سے استفادئہ علمی کیا۔
٭ معاصر علماء کی عملی تربیت اور ان کی صلاحیتوں کے لیے اظہار کے مواقع پیدا کیے تاکہ مسلک سلف محدثین کے احیاء کاکام جاری رہے۔
٭  نادر و نایاب کتابوں کی جمع و اشاعت تاکہ جن کتابوں کا حصول مرحلۂ سخت و دشوار تھا وہ بآسانی میسر آسکے۔
٭  بذریعہ تصنیف و تالیف جو اخلاف کے لیے عظیم علمی خزینہ ثابت ہوسکے۔
اب دیکھنا ہے یہ کہ محدث شمس الحق ڈیانوی کی خدمات حدیث کا دائرہ کار(جوکہ خاصا وسیع ہے)کس قدر متحریک و فعال اور کامیاب وکامران رہا۔
محدث ڈیانوی نے تکمیل علوم دین سے فراغت کے بعد ڈیانواںمیں اپنے دولت کدہ پر ہی قال اﷲو قال الرسول کی صدائیں بلند کیں۔آپ کی خدمت تدریس کم و بیش تیس برس پر محیط ہے اس عرصے میں آپ کے سلسلۂ تدریس کو زبردست شہرت ملی ، علمائے حجاز تک دبستانِ علم و فضل کے خوشہ چیں ہوئے،محدث شمس الحق عظیم آبادی کے چند مشہور تلامذہ ٔ ذی اکرام کے اسمائے گرامی یہ ہیں
١-  علامہ ابو عبد الرحمان محمد اشرف ڈیانوی ( م ١٣٢٦ھ ) برادرِصغیر
٢- شیخ الحدیث مولانا احمداﷲمحدث پرتاپ گڑھی ثم دہلوی ( م ١٣٦٢ھ
٣- علامہ ابو القاسم سیف بنارسی مصنف ''حل مشکلات بخاری''( م ١٣٦٩ھ
٤- قاضی شیخ صالح بن عثمان نجدی ( م ١٣٥٠ھ) امام مسجد نبوی
٥- شیخ عبد الحفیظ بن محمد طاہر الفاسی المراکشی ( م ١٣٨٣ھ
٦- مولانا ابو سعید شرف الدین محدث دہلوی ( م ١٣٨١ھ
٧- شیخ الحدیث مولانا فضل اﷲ مدراسی ( م ١٣٦١ھ
٨- علامہ سید اسماعیل خطیب حسنی ازہری 
٩- شیخ صالح بن ابراہیم بن رشید المحیمید ( م ١٣٧٠ھ
١٠- مولانا عبد الحمید سوہدروی ( م ١٣٣٠ھ
١١- مولانا حکیم ابو عبد اللہ محمد ادریس ڈیانوی ( م ١٣٨١ھ ) صاحبزادے
١٢- مولانا حافظ محمد ایوب ڈیانوی ( م ١٣٤٥ھ )صاحبزادے
١٣- مولانا عبد الجبار ڈیانوی ( م ١٣١٩ھ
١٤- مولانا عین الدین مٹیابرجی  
١٥- مولانا محمد زبیر ڈیانوی ( م ١٣٢٩ھ
١٦- مولانا عبد العزیز متوطن احمد پور شرقیہ 
١٧- مولانا نذیر احسن نسیم ہلسوی ( م ١٣٣٧ھ
١٨- مولوی محمد موسیٰ ڈیانوی 
١٩- مولانا عبد الحکیم جیوری
علامہ عبد السلام مبارکپوری محدث شمس الحق کی وفات پر اپنے دل محزون کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ایک مقام پر لکھتے ہیں
''دنیا سے مرنا سب کو ہے لیکن ایک موت وہ ہوتی ہے جو ایک جہاں کی موت خیال کی جاتی ہے اﷲ جل شانہ کی ذات غنی ہے اس کو کسی کی بھی پروا نہیں ،نہ کسی کے جینے سے اس کا کچھ بنتا ہے اور نہ مرنے سے کچھ بگڑتا ہے وہ اپنے ملک میں جو چاہے کرے لہ ما اعطی و لہ ما اخذ و کل شیٔ عندہ بمقدار وہ ایسے ایسے کتنے شمس الحق پیدا کردے   وھو بکل شیٔ قدیر لیکن ہماری بین نظر میں اس موت سے سردست ایک بڑے فیض کے بند ہونے کی صورت نظر آرہی ہے ۔ علامہ ابو الطیب کی ذات بابرکات سے علاوہ ہندوستان کے ملک عرب میں عسیر، بغداد، عمان، نجداور ملک مغرب میں فارس وغیرہ میں بھی فیضیاب ہورہے تھے ،ان ممالک سے طلبہ آتے اور علوم حدیث کا استفادہ کرتے ان ممالک بعیدہ کے طلبہ کی آپ سب سے زیادہ خاطر کرتے اور علاوہ خوراک وسبق کے ان کے لیے جیب خرچ اور لباس و کتابوں کا بھی سامان کرتے، ان کے ناز اٹھاتے ،عرب کے لوگ بگڑے دل ہوتے ہیں مولانا کی علالت یا کسی اور ضروری کام کے اشتغال کی وجہ سے کبھی سبق ناغہ ہوتا تو یہ لوگ بگڑ کھڑے ہوتے ۔ مولانا مرحوم ان کی دلجوئی کرتے مناتے۔''  ہفت روزہ ''اہل حدیث '' امرتسر:٢٨ اپریل ١٩١١ئ
مسلک سلف محدثین کی تجدید و احیاء کے لیے امام ابو الطیب شمس الحق نے متعدد علماء کو تیار کیا ، ان کی علمی و عملی تربیت کی،مالی اعانت مستقل فرماتے رہے،ان کی بعض تصانیف کو اپنے ذاتی خرچ سے طبع کرواکر ﷲتقسیم کیا۔حضرت مولانا عبد السلام مبارک پوری  لکھتے ہیں
''علماء اہلحدیث یا فارغ التحصیل طلبہ سے ملاقات کرتے اور ان کو تصنیف وتالیف کا شوق دلاتے ، تحقیقات علمیہ کا پتہ بتاتے ،کتابوں کا پتہ دیتے ،کتابیں مہیا کردیتے ، مشاہرہ دیتے جو شخص دوچار روز بھی صحبت پاتا، تصنیف و تالیف کے شوق میں ڈوب جاتا۔'' حوالۂ مذکور
جن علماء کی شاہراہِ عمل میں محدث شمس الحق عظیم آبادی نے راہنمائی اور معاونت کی ان میں سے بعض کا تذکرہ درج ذیل ہے۔
٭ مولانا محمد سعید محدث بنارسی کوتائیدِ مسلکِ محدثین کے لیے تیار کیا۔مولانا رشید احمد گنگوہی کی ''اوثق العریٰ'' کے جواب میں'' کسر العریٰ بأقامة الجمعة فی القریٰ'' لکھوائی اور اپنے خرچ پر طبع کروائی۔اس کے علاوہ مولانا بنارسی کے قائم کردہ ''مدرسہ سعیدیہ ''کی بھی ہر ممکن مدد کی۔
٭ مولانا ابو المکارم محمد علی مئوی سے مولانا ظہیر احسن شوق نیموی کے رسائل کی تردید میں مختلف رسائل لکھوائے جن میں ''المذھب المختار فی الرد علیٰ جامع الآثار''خاصی مشہور ہوئی۔
٭ علامہ عبد الرحمان محدث مبارکپوری نے محدث ڈیانوی کے ایماء پر سات برس ڈیانواں میں قیام کیا۔ علامہ ظہیر احسن شوق نیموی نے جب '' آثار السنن'' لکھی ، جس میں مذہب حنفی کی رعایت کرتے ہوئے مختلف کتب سے ہر نوع کی احادیث جمع فرمادیں، تو محدث ڈیانوی کے حکم پر اولاً علامہ مبارکپوری  نے بصورت اشتہار '' اعلام اھل الزمن'' لکھی اور پھر ''ابکار المنن''کے نام سے اس کا مستقل جواب بھی حضرت ڈیانوی ہی کے ایماء پر لکھنا شروع کیا۔چنانچہ علامہ عبد الرحمان مبارکپوری ''اعلام اھل الزمن'' میں لکھتے ہیں
''جب میں نے اس کتاب  ( آثار السنن) کو دیکھا اسی وقت اس کے مفصل اور مبسوط جواب لکھنے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا لیکن فرصت کا منتطر تھا۔اس اثنا میں جناب مولانا ابو الطیب شمس الحق صاحب محدث عظیم آبادی کی خدمت میں مختلف دیار و امصار سے متعد د خطوط اس کتاب کے جواب کے بارے میں آئے اور جناب ممدوح نے اس خاکسار کوا س کے جواب لکھنے کی نسبت ارشاد فرمایا۔اس لیے اس کا جواب شروع ہی کردینا مناسب معلوم ہوا۔اگر چہ بوجہ دیگر مشاغل علمیہ کے فرصت بہت کم ہی رہتی ہے ۔ پس بذریعہ اس اشتہار کے عام اطلاع دی جاتی ہے کہ آثار السنن کا جواب نہایت تحقیق و بسط کے ساتھ متوکلاً علی اﷲشروع کردیا گیا۔ اﷲ تعالیٰ جلد اختتام کو پہونچا کر شائع کرائے۔آمین۔'' ] اعلام اھل الزمن :١٣
جب علامہ شوق نیموی نے دیہات میں جمعہ کے عدم جواز پر ''جامع الآثار'' ' لکھی تو بحسبِ ارشاد حضرت محدث ڈیانوی  مولانا مبارکپوری نے اس کا جواب ''نور الابصار'' کے عنوان سے تحریر فرمایا۔''نور الابصار''کے ساتھ مولانامولا بخش بڑاکری بہاری کی ''التجمیع فی القریٰ بنقض ما فی اوثق العریٰ''اور مولانا محمد سعید بنارسی کی ایک تحریر دربابِ تقلید مولانا رشید احمد گنگوہی کے جواب میں بھی مطبوع ہے۔
اور''نور الابصار''پر مولانا نیموی  کے محاکمے کا جواب بھی علامہ مبارکپوری نے حضرت محدث ڈیانوی ہی کے دولت کدے پر لکھا۔''فتاویٰ نذیریہ''کی ترتیب وتدوین بھی محدث شمس الحق ڈیانوی کی خواہش پر انجام دی اور''عون المعبود'' کی تصنیف میں بھی محدث ڈیانوی نے ان کی استعداد کے مطابق کام لیا۔
٭ علامہ عبد السلام مبارکپوری کا شمار محدث شمس الحق ڈیانوی  کے اخص احباب میں ہوتا ہے۔ محدث ڈیانوی نے ان کی ہر طرح سے مالی،علمی،عملی اور اخلاقی اعانت کی۔ علامہ عبد السلام مبارکپوری رقمطراز ہیں:
''اس کمترین نے سیرة البخاری انہی کے شوق دلانے سے لکھی۔مولانا مرحوم نے سو نسخہ خریدنے کا وعدہ فرمایا تھا۔جس روز طبع ہوکر مکمل ہوئی۔مولانا مرحوم طاعون میں مبتلاتھے۔'' ]  ہفت روزہ ''اہل حدیث'' (امرتسر) :٢٨ اپریل ١٩١١ئ
اور ''سیرة البخاری''کے دیباچہ میں لکھتے ہیں
''ایک مدت سے میرے دماغ میں امام المحدثین کی سوانح عمری لکھنے کا خیال چکر لگارہا تھا۔لیکن بے بضاعتی اور مواد کی قلت کسی طرح اس طرف قدم بڑھانے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ایک بار جناب مولانا ابو الطیب محمد شمس الحق صاحب عظیم آباد ی سے اس کا تذکرہ ہوا۔ علامہ موصوف نے ہمت دلا کر کتابوں کا پشتارہ لگادیا اور مواد کے فراہم کرنے کے لیے دور دراز ملکوں میں خطوط بھیجے نسخ مطبوعہ اور قلمیہ برابر میرے پاس بھیجتے رہے۔''  ] سیرة البخاری:٣٤ 
٭ مولانا فضل حسین مظفر پوری نے جب شیخ الکل سید میاں نذیر حسین کی سوانح عمری لکھنے کا ارادہ کیا تو ان کے سب سے بڑے معاون محدث شمس الحق ہی تھے،جس کا ذکر خود مولانا مظفر پوری نے بایں الفاظ کیا
''میری کافی مدد اس خصوص میں مولانا مولوی ابو الطیب محمد شمس الحق صاحب سلمہ اﷲ تعالیٰ رئیس موضع ڈیانواں ضلع پٹنہ مولف ''غایة المقصود شرح سنن أبی دا ؤد''نے کی کہ اپنا انتالیس برس کا جمع کیا ہوا سرمایہ میرے پاس نہایت ہی خوشی سے بھیج دیا اور میری ہمت بڑھانے میں اس طرح کوشش بلیغ کی کہ ہندوستان کے مختلف حصص میں خط لکھا اور بہیترے اخباروں میں اشتہار دیاکہ'' مولانا سید محمد نذیر حسین علیہ الرحمة محدث دہلوی کے سوانح لکھے جاتے ہیں جن حضرات کے پاس جو کچھ مواد اس کے متعلق کتابتاً یا روایتاً موجود ہو بذریعہ تحریر کے میرے پاس بھیج دیں۔''نتیجہ اس کوشش کا یہ ہوا کہ مختلف حصص ملک سے دونوں قسم کے مواد (مکتوبہ  و مرویہ)ان کے پاس لگاتار پہنچتے رہے اور وہ میرے پاس وقتاً فوقتاً بھیجتے اور حوصلہ بڑھاتے رہے۔ ممدوح کو اس سوانح عمری کے ساتھ ایک خاص دلچسپی ہے اور ان کی کوشش کی بدولت اس وقت میرے پاس میٹریل کا معتد بہ ذخیرہ موجود ہے۔'' ] الحیاة بعد المماة:٥-٦ 
٭ مولانا عبد العزیز صمدن فرخ آبادی نے جب ''مکاتیب نذیریہ''کی ترتیب و تدوین کا آغاز کیا تو اس کے سب سے پہلے معاون بھی حضرت ڈیانوی  ہی تھے ۔چنانچہ مولانا فرخ آبادی رقمطراز ہیں
''تدوین عالی صحائف اعلیٰ حضرت امیر المومنین فی الحدیث و التفسیر امام عصر مجدد مأتہ رابع عشر رضی اﷲ عنہ (دہلوی)کا نہایت ہی محال تھا کیونکہ معلی بالقابہ کے درِ دولت پر کوئی دفتر ان مناشیر فیض مظہر کا مرتب نہیں کیا جاتا تھااور نہ کوئی خلاصہ کسی کتاب میں لکھنے کا دستور تھا لہٰذا اقطارِ عالم سے فراہمی مکاتیب کے لیے التجا کی گئی میرے مکرم مولاناسید احمد حسین صاحب مدیر شحنہ ہند میرٹھ نے میری درخواست نہایت شدو مدسے بفرطِ اتحاد شائع و ذائع فرمائی تو سب سے پہلے میرے مکرم دوست افضل المحدثین مجتہد مطلق مولانا محمد شمس الحق صاحب ڈیانوی (عظیم آبادی) نے میری ہمت کو بڑھا کے اپنے احباب و شناسا سے خطوط مانگے اور میرے پاس بھیجنے لگے ۔'' ] مکاتیب نذیریہ:٣  
بلکہ مولانا ابو القاسم سیف بنارسی کی تحریر سے تو مترشح ہوتا ہے کہ '' مکاتیبِ نذیریہ '' کے جمع و ترتیب کی طرف سب سے پہلی توجہ حضرت محدث ڈیانوی ہی کی مبذول ہوئی تھی ۔ چنانچہ '' اہلِ حدیث '' امرتسر میں '' مکاتیب نذیریہ '' کے عنوان سے لکھتے ہیں 
''عرصہ ہو اکہ حضرت میاں صاحب مرحوم دہلوی کے روحانی فرزندوں کو خیال پیدا ہوا تھا کہ حضرت ممدوح کے مکتوبات بھی جمع کیے جائیں۔ جس کا ذمہ حضرت مولانا شمس الحق صاحب مرحوم عظیم آبادی نے اپنے سر لیا تھا اور میاں صاحب کے تمام شاگردوں سے ان کے خطوط منگائے تھے ، بایں شرط کہ بعدِ تکمیل کتاب خطوط واپس کردیے جائیں گے ۔ جس کو دس گیارہ سال کا عرصہ گزرا۔ محدث عظیم آبادی بھی اس عرصہ میں انتقال کرگئے ۔ پھر معلوم نہ ہوا کہ ان خطوط کی ترتیب و تالیف کا کس صاحب نے ذمہ لیا ۔ اگر یہ اہم کام تکمیل کو پہنچ گیا تو فبہا اس صورت میں سب کے خطوط واپس ملنے چاہئیں اور اگر ملتوی کردیا گیا ہے تو بھی شائقین میاں صاحب کے خطوط کو اپنی نظروں سے جدا کرنا نہیں چاہتے لہٰذا بہتر ہوگا کہ ان کے خطوط واپس کردیے جائیں ۔ میں نے بھی حضرت میاں صاحب کے وہ خطوط جو بنام والد مرحوم تھے ۔ ارسال کیے تھے ۔ مجھے بھی وہ خطوط واپس کردیے جائیں امید ہے کہ مولوی ابو الحسن صاحب دہلوی ]میاں صاحب  کے پوتے[اس کا تشفی بخش جواب دیں گے ۔'' ]١٣ اکتوبر ١٩١٩ئ 
'' مکاتیبِ نذیریہ '' کی طرح '' فتاویٰ نذیریہ '' کی تدوین و اشاعت کے محرک اوّل بھی محدث ڈیانوی ہی تھے ۔ اس کی طباعت بھی موصوف کی ہی رہینِ منت ہے ۔ علّامہ عبد السلام مبارک پوری لکھتے ہیں
'' حضرت میاں صاحب مرحوم کا مجموعہ فتاویٰ انہیں کے اہتمام سے جناب مولانا عبدالرحمان صاحب مبارک پوری درست کررہے ہیں ، جو سو ١٠٠ جزو تک کلاں ورق پر پہنچ چکا ہے۔''  ] '' اہلِ حدیث '' امرتسر: ٢٨ اپریل ١٩١١ئ
٭ اپنے تلمیذ خاص علامہ ابو القاسم سیف بنارسی کو مولوی عمر کریم پٹنوی کے خرافات کی تردید کا حکم دیا،اس ضمن میں شائع ہونے والی کتب کے مصارف بیشتر حصہ خود ادا کیا۔ بعض کتابوں پر بغرضِ حوصلہ افزائی تقاریظ بھی لکھیں۔ چنانچہ مولانا ابو القاسم ''الامر المبرم''میں لکھتے ہیں
''مولاناا بو لطیب شمس الحق صاحب عظیم آبادی سے کون واقف نہیں؟آپ خاکسار کے شیوخ حدیث سے تھے اور عاجز پر بہت مہربان رہتے ۔خصوصاً فدوی کے رسائل سے بے انتہا خوش ہوتے اور ان کو  بالالتزام من اولہ الیٰ آخرہ ملاحظہ فرما کر تقریظ لکھ دیتے اور ہر قسم کی مالی اعانت اس کے لیے فرماتے۔یہ کتاب ''الامر المبرم'' بھی فقیر نے آپ ہی کے ایماء سے لکھنی شروع کی ۔آپ نے فرمایا تھا کہ ''الکلام المحکم'' کا جواب لکھو تو میں تم کو دو عمدہ کتابیں بطور انعام کے دوں گا۔ (١) ایک نہایہ ابن اثیر کامل ہر چہار جلد (٢) دوسری تہذیب التہذیب کامل بارہ جلدیں۔ چنانچہ نہایہ تو آپ نے پہلے ہی مرحمت فرمائی اور تہذیب التہذیب کے لیے بعد اتمام کتاب ہذا وعدہ تھا۔صرف لکھنے کے لیے اپنا نسخہ مرحمت فرمایا تھا اور طبع کے لیے نقدی امداد کا وعدہ تھا افسوس کہ قبل اشاعت کتاب ہذا آپ بتاریخ ١٩ ربیع الاول ١٣٢٩ھ یوم سہ شنبہ مطابق ٢١ مارچ ١٩١١ء بوقت ٦ بجے صبح بعارضہ طاعون انتقال فرماگئے اور جس وقت کہ دنیا کا آفتاب طلوع ہوا تھا اسی وقت دین کا آفتاب (شمس حق یعنی حق کا آفتاب)غروب ہوا۔انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔ اللّٰھم اغفرلہ و ارحمہ  ع  جی کے جی ہی میں رہے ارمان سارے چل بسے۔''( الامر المبرم لابطال الکلام المحکم :٢٤٣
٭ مولوی حبیب الرحمان ساکن کٹونہ عظیم آباد اپنے برادرِ اکبر مولانا عبد البر عظیم آبادی کے حالات میں لکھتے ہیں 
''مولانا شمس الحق محدثِ ڈیانواں ( جو تحریصِ خدمتِ علمِ دین میں غایت مستعد تھے ) کی نظر آپ پر لگی ہوئی تھی۔ محدث آپ کی وسعتِ نظر اور مبلغِ علم کا اندازہ آپ کی تصانیف سے کرنا چاہتے تھے تاکہ ترویجِ علومِ دین کی جانب کامل اطمینان و تقویت حاصل ہوسکے۔ مگر اس آرزو کے پورے ہوتے ہی بادِ سموم نے یکے بعد دیگرے نخلِ آرزو کا خاتمہ کردیا۔''  ]  ہفت روزہ ''اہلِ حدیث ''(امرتسر):٣١ مارچ ١٩١١ئ
علّامہ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ محدث ڈیانوی رحمہ اللہ کی خدماتِ گوناگوں کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں 
'' اس وقت کے متعدد نوجوان علماء کو عملی تربیت دی تاکہ تعلیق و حواشی کا یہ کام جاری رہ سکے ۔ متعدد حدیثیں رسالے اور فنِ حدیث و رجال کی اہم کتابیں اور رسالے طبع کرواکر شائع کرائے اور اس طرح عملی کا م کا یہ خلاء اللہ تعالیٰ نے مولانا شمس الحق کے ذریعہ پورا فرمایا۔'' ] مولانا شمس الحق عظیم آبادی ، حیات و خدمات :١٠-١١
کتابوں کی جمع و اشاعت کے ممدوح شائق ہی نہیں بلکہ حریص تھے ، ان کی بدولت ارضِ ڈیانواں کا بخت بیدار ہو گیا ، علمِ حدیث ورجال کے وہ علمی خزینے جنہیں دیکھنے کے لیے اہلِ علم کی نگاہیں ترستی اور دل تڑپتے تھے ، ڈیانواں میں جمع ہوگئے اور علمِ حدیث و علمِ اسماء الرجال کے مخطوطات و مطبوعات کے لحاظ سے یہاں کا کتب خانہ ہندوستان بھر میں اوّل نمبر پر آگیا۔
علّامہ ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں 
''باوجود ایک اچھے خاصے رئیس ہونے کے دینی خدمات میں شب و روز مشغول تھے ۔ فنِ حدیث کا کتب خانہ اتنا تھا کہ ندوة العلماء نے جو بنارس میں پرانی کتابوں کی نمائش کی تھی تو مولانا کے کتب خانہ سے بہت سی کتابیں آئی تھیں۔ مطبع دائرة المعارف حیدر آباد دکن بھی مرحوم کا ممنون و مرہونِ احسان تھا ۔ فن حدیث کے جملہ شعبوں سے آپ کو شوق ہی نہ تھا بلکہ شغف تھا ۔ آپ نے بہت سی کتبِ حدیث کی شرحیں عربی میں لکھیں ۔ غرض اچھے خاصے جامع محدث کی حیثیت سے تھے ۔ '' ] اہلِ حدیث امرتسر :٣١ مارچ ١٩١١ئ
مولانا شبلی نعمانی دارالعلوم ندوة العلماء لکھنؤ کے علمی نمائش منعقدہ ١٩٠٦ء بمقام بنارس میں کتب خانہ ڈیانواں کی کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں 
''فن حدیث کی نہایت نایاب کتابیں مولوی شمس الحق صاحب ڈیانوی نے عنایت کی تھیں ، جن میں سے متعدد کتابیں ایسی تھیں ، جو امام بخاری سے پیشتر زمانہ کی تصنیف تھیں۔'' ] ماہنامہ '' الندوہ '' (لکھنؤ) :٣/٢، مقالات شبلی :٧/١٠٤
مولانا عبد السّلام مبارکپوری نے امام ابو الطیب شمس الحق کے کتب خانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 
''یوں تو ہندوستان میں بہت سے کتب خانے ہیں لیکن علّامہ ابو الطیب کا کتب خانہ خاص بات رکھتا ہے کہ اس میں ہر فن کی کارآمد اور مفید کتابیں جمع ہیں ۔علّامہ مرحوم کی ساری عمر کی محنتوں اور جاں فشانیوں کا نتیجہ ہے کہ آپ کے خداداد شوق کا ماحصل خداوندِ کریم اس کی حفاظت کرے کہ اس میں قلمی کتابوں کے بڑے بڑے جواہر نادر الوجود ہیں جن کے دیکھنے کے لیے یورپ کے شائقین کی آنکھیں ترستی ہیں ۔ کتبِ قلمیہ کے علاوہ بیروت ، مصر ، جرمن ، فرانس ، انگلینڈ ، لندن ، ہندوستان وغیرہ کی مطبوعہ کتابیں پہلے طلب کرتے ۔ اکثر نسخے مکرر ہوجاتے ، ان کو فی الفور اہلِ حاجت کے حوالہ کردیتے۔ ایک بار قسطلانی شرح صحیح بخاری کے کئی نسخے ہوگئے تو ایک کتب خانہ مدرسہ اصلاح المسلمین کے اور دوسرا مولوی محمد صاحب پٹنوی مالک مطبع احمدی کے حوالے کردیا۔'' ]اہلِ حدیث امرتسر :٢٨اپریل ١٩١١ئ
ڈیانواںمیں ان علمی خزینوں کے عظیم اجتماع کا مبارک نتیجہ یہ نکلا کہ اکابر علماء ڈیانواں کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف کرتے اور محدث ابو الطیب ان عالی قدر مہمانانِ گرامی کی میزبانی کے فرائض انجام دیتے ۔ ایک بار استاذِ پنجاب حافظ عبد المنان وزیرآبادی کو بھی ڈیانواں بلایا۔ حافظ صاحب موصوف کے نواسے مولانا عبدالمجید خادم سوہدروی ، محدث ڈیانوی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں
''حضرت حافظ صاحب وزیر آبادی رحمة اللہ علیہ سے مرحوم کو خاص انس تھا ایک بار حافظ صاحب کو اپنے پاس ڈیانواں ضلع عظیم آباد پٹنہ میں بلایا اور بہت خاطر و مدارات سے پیش آئے اور اپنا عظیم الشان کتب خانہ ( جو نایاب و نادر کتب کے لحاظ سے سارے علاقہ میں اول نمبر تھا ) دکھایا۔ اور کئی ایک کتابیں جو آپ نے زرِ کثیر صَرف کرکے بیروت سے مہیا کی تھیں دکھائیں، سنائیں اور تبادلۂ خیالات کرکے فوائدِ علمیہ لا متناہیہ سے محظوظ ہوئے ۔ مرحوم کو حدیث اور علمائے اہل حدیث سے بے حد محبت تھی۔ علمی دنیا کو آپ کی ذات ستودئہ صفات سے بہت فائدہ ہوا۔'' ]استادِ پنجاب : ٩٦
نادر دینی کتب کی طباعت و اشاعت کے ضمن میں محدث شمس الحق کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں ۔ علمِ حدیث ورجال کی متعدد کتابیں ان کی سعیِ مبارکہ سے منصہ شہود پر آئیں۔ علّامہ سیّد سلیمان ندوی رقمطراز ہیں:
'' مولانا شمس الحق مرحوم ( صاحبِ عون المعبود ) ..........نے کتبِ حدیث کی جمع اور اشاعت کو اپنی دولت اور زندگی کا مقصد قرار دیا اور اس میں وہ کامیاب ہوئے ۔''  ] مقدمہ '' تراجم علمائے حدیث ہند '':٣٧
امام شمس الحق ڈیانوی کے حفیدِ سعید محمد احسن اللہ ڈیانوی عظیم آبادی لکھتے ہیں
'' اللہ تعالیٰ نے جہاں آپ کو علومِ دینیہ اور حمیّت دین سے نوازا وہاں اس نے دولت سے بھی سرفراز کیا ۔ آپ نے اللہ کی ان دونوں نعمتوں کو پورے اخلاص سے اشاعتِ حدیث و سنّت ، ترویجِ دینِ حق اور ردّ بدعات میں صَرف کیا۔ اس سلسلہ میں دینی خدمات کرنے والوں کی اعانت بھی کرتے رہے ۔ بہت سی کتابیں چھپوا کر لوگوں میں مفت تقسیم کیں۔'' ]محدث ڈیانوی 
علمِ حدیث کی مایۂ ناز کتاب '' سنن دارقطنی '' کو پہلی مرتبہ اپنی تعلیقات کے ساتھ مطبع فاروقی دہلی سے ١٣١٠ھ میں طبع کروایا ۔ رجالِ موطاء سے متعلق علّامہ جلال الدین سیوطی ( م ٩١١ھ ) کی کتاب ''اسعاف المبطاء برجال الموطاء '' بھی پہلی مرتبہ محدث ڈیانوی ہی کی مفید تعلیقات کے ساتھ ١٣٢٠ھ میں منظرِ عام پر آئی ۔ امام ابنِ حجر عسقلانی کی بلند پایہ علمی تصنیف '' التلخیص الحبیر '' کی پہلی مرتبہ طباعت بھی محدث موصوف ہی کے حسنات میں سے ہے ۔ امام المحدثین امام بخاری ،شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ ، امام حافظ ابنِ قیّم ، حافظ شمس الدین الذہبی ، حافظ عبد العظیم منذری رحم اللہ علیہم اجمعین کی مختلف تصانیف اپنے خرچ پر طبع کرواکر مفت تقسیم کروائیں۔
امام ابن قیم کی '' تہذیب السنن '' اور حافظ منذری کی '' تلخیص السنن ' ' پہلی مرتبہ '' غایة المقصود '' کے حاشیہ پر طبع ہونا شروع ہوئی تھیں ، مگر '' غایة المقصود '' کی بقیہ جلدیں بھی طبع نہ ہوسکیں اور یہ کام بھی ادھورا رہ گیا۔ مولانا ابو القاسم سیف بنارسی لکھتے ہیں 
'' اشاعتِ حدیث و زائع علمِ حدیث کی سعی میں ہر دم ہر آن رہتے ۔ تہذیب التہذیب و لسان المیزان وغیرہ آپ ہی کی سعی سے حیدر آباد میں طبع ہوئی تھیں ۔ سنن دارقطنی کا ظہور آپ ہی کی ذات سے ہند میں ہوا اور وہ بھی حل اور شرح کے ساتھ ۔ غرض علمِ سنن کو آپ نے بہت شائع کیا۔'' ]'' اہلِ حدیث '' امرتسر: ٣١ اکتوبر ١٩١٩ئ
اسماء الرجال کی بعض قدیم کتابوں کی طباعت کے سلسلے میں محدث عظیم آبادی کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے علّامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں 
'' مولانا شمس الحق صاحب مرحوم محدث عظیم آبادی اور مطبع انوارِ احمدی الہ آباد کی کوششیں مسلمانوں کے شکریہ کی مستحق ہیں کہ انہوں نے اسماء الرجال کی قدیم کتابوں کو چھاپ کر اہلِ علم کو ممنونِ احسان کیا (١) تاریخ صغیر امام بخاری المتوفیٰ ٢٥٦ھ (٢) کتاب الضعفاء الصغیر امام بخاری المتوفیٰ ٢٥٦ھ(٣)کتاب الضعفاء و المتروکین امام نسائی المتوفیٰ ٣٠٣ھ (٤) کتاب الکنیٰ و الاسماء دولابی المتوفیٰ ٤١٠ھ (٥) کتاب المؤ تلف و المختلف فی اسماء نقلتہ الحدیث عبد الغنی ازدی المتوفیٰ ٤٠٩ (٦) کتاب مشبہ النسبہ عبد الغنی ازدی المتوفیٰ ٤٠٩ ھ۔ یہ قدیم سرمایہ چھپ کر شائع ہوا ہے ۔ '' ]ماہنامہ '' معارف '' اعظم گڑھ : اپریل ١٩٣١ئ[
''لسان المیزان '' سے متعلق مولانا عبد السّلام مبارکپوری لکھتے ہیں 
'' یہ مبارک کتاب ]لسان المیزان [ اب تک قلمی کئی سو کو ملتی ہے اور اس پر بھی اہلِ علم اور شائقینِ فنِ حدیث کی آنکھیں اس کتاب کے مطالعہ کے لیے ترستی ہیں ۔ ان سب حالتوں پر نظر کرکے مولانا ابو الطیب محمد شمس الحق صاحب نے مطبع دائرة المعارف حیدر آباد کے اراکین سے اس کے طبع کی تحریک کی گو وہ خود وہاں کے ایک رکن ہیں لیکن اس کتاب کے طبع کی رائے پاس نہیں ہوتی تھی شکر ہے کہ خدا کے فضل سے یہ تحریک اس شر ط پر منظور ہوئی کہ کم از کم سو خریداروں کی درخواست آجائے تو طبع ہونا شروع کردیا جائے گا ۔'' ]''اہلِ حدیث '' امرتسر: ٦ جنوری ١٩١١ء 
چنانچہ محدث عظیم آبادی کی تحریک سے مطبع دائرة المعارف النظامیہ حیدر آباد دکن سے یہ نادر کتاب طبع ہوئی، تاہم یہ خواہش محدث عظیم آبادی کی حیات میں بَر نہ آسکی ۔
اس کے علاوہ الادب المفردللبخاری ، خلق افعال العباد للبخاری ، تذکرة الحفاظ للذہبی ، کتاب العرش و العلو للذہبی ، قیام اللیل للمروزی ، کتاب القرأة خلف الامام للبیہقی ..... وغیرہا کی اشاعت میں بھی آپ کی سعیِ مبارکہ کادخل تھا۔ بلکہ ان میں سے بعض کتابوں میں مشکل مقامات کے حل و توضیح کے لیے آپ کے رشحات قلم سے بعض حواشی بھی پائے جاتے ہیں۔ شائقینِ کتب کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے امام ابو الطیب شمس الحق نے جس طرح کتابوں کی تقسیم و اشاعت کی وہ حد درجہ لائقِ قدر و ستائش ہے ۔ طلابِ علم کے لیے صلائے عام تھی وہ کتابیں منگواتے اور آپ روانہ کردیتے ۔ علّامہ عبد السّلام مبارکپوری لکھتے ہیں
'' طلبا کی مدد جس طرح کتابوں سے کرتے اس سے صرف ہندوستان کی واقف نہیں بلکہ ملک عرب و مغارب تک اس کا شہرہ ہے ۔ طلبہ کے خظوط کتیابوں کی طلب میں درجنوں آتے رہتے آپ ان کو نمبر وار درج رجسٹر فرماتے اور نمبر وار ترتیب سے ان کو کتابیں بھیجتے ۔ بسا اوقات کثرت درخواست سے چھ چھ برس کے بعد کتابوں کے بھیجنے کی نوبت آتی جس قدر جماعت اہلِ حدیث کی ، تمام ہندوستان میں ہے ، کوئی جگہ شاید ایسی ہو جہاں حضرت میاں صاحب مرحوم کے بعد ان کا فیض نہ پہنچا ہو اور وہاں کے مدرسہ میں بشرطیکہ قابلِ ذکر ہو مولانا کے کتابوں کا عطیہ نہ پہونچا ہو ۔ اس کے علاوہ دیوبند ، سہارن پور ، میرٹھ وغیرہ کے مدارس بھی آپ کے فیض کے ممنون ہیں۔ اگر مدرسہ احمدیہ کے رکن اور کانفرنس اہلِ حدیث کے امین ، مدرسہ اصلاح المسلمین پٹنہ کے سکرٹری تھے تو مطبع دائرة المعارف حیدر آباد کے رکنِ اعظم بھی تھے ۔ یہ تہذیب التہذیب ، تذکرة الحفاظ وغیرہ کتب نادر الوجود آپ ہی کے مشورے سے طبع ہوئیں ۔ مصر کے مطابع آپ سے طبع کتب کی رائے لیتے۔'' ]''اہلِ حدیث '' امرتسر: ٢٨ اپریل ١٩١١ء 
آخری ایام میں علّامہ سمعانی کی '' الانساب ''، حافظ ابنِ حجر کی '' لسان المیزان '' اور امام ابنِ عبد البر کی '' التمہید '' کی طباعت کا ارادہ فرمایا تھا ، مگر شمعِ حیات نے وفا نہ کی اور اس حسرت کو لیے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی ۔
اپنے معاصر علماء میں مچھلی شہرکے قاضی محمد کی ٢٥ کتابوں کی اشاعت کے بڑے آرزو مند تھے ، اس سلسلے میں ان کے صاحبزادوں سے بغرضِ طباعت مسودوں کے حصول کی پیہم کوشش کی ، امید بھی ہوچلی تھی کہ خود جامِ حیات ہی چھلک پڑا ۔ ورنہ آپ کی توجہ سے یہ علمی خزینہ دست برد زمانہ کی نذر ہونے سے بچ جاتا۔
اپنے معاصر علماء سے جو کتابیں لکھوا کر شائع کروائیں ان کا ذکر گزشتہ اوراق میں ہوچکا ہے ۔
امام ابو الطیب شمس الحق کا ایک ناقابلِ فراموش کارنامہ ان کی شروحِ کتبِ حدیث ہیں ۔ جس میں ان کے مجتہدانہ اندازِ فکر کے علمی تحقیقات اور اس پر مستزاد ان کے سلیس و فصیح طرزِ بیان نے ممالکِ عرب و مغارب کے اربابِ علم کو بھی متاثر کیا حتیٰ کہ علم حدیث کے ہر طالب علم کے لیے اس سے استفادہ ناگزیر ہوگیا۔
محدث جلیل ابو الطیب شمس الحق کی عظیم الشان تصنیف '' غایة المقصود فی حل سنن أبی داود '' ہے ۔ جس کا تعارف دمشق کے نامور فاضل علّامہ محمد منیر دمشقی نے بایں الفاظ کرایا ہے 
'' و شرح ابو الطیب المسمی '' غایة المقصود فی حل سنن أبی داود '' و ھو الشیخ الجلیل ابو الطیب محمّد الشہیر بشمس الحق العظیم آبادی، و ھو شرح واسع جداً ینقل عمن تقدمہ من اصحاب الشروح و الحواشی و غالبا یعزو ما نقلہ الی صاحبہ ، و ھو یتعرض اولاً الی بیان تراجم الرواة و حال درجاتھم ثم یعقب ذٰلک بالکلام علی الکلمات اللغویة ثم علی فقہ الحدیث و قلدہ فی ذٰلک الشیخ السبکی ] محمود خطاب [ رحمہ اللّٰہ ، و المولف صاحب عقیدة صحیحة و مذھبہ مذھب أھل الحدیث ، و الشرح لا بأس بہ ، کل من جاء بعد من شیوخ الھند وغیرہم استمدوا شرحہ ھذا۔'' ] نموذج من الاعمال الخیریة : ٦٢٧
یہ شرحِ کبیر ٣٢ ضخیم جلدوں پر محیط تھی مگر افسوس کہ اس کی صرف پہلی جلد شارح علیہ الرحمة کی زندگی میں مطبع انصاری دہلی سے ١٣٠٥ھ میں طبع ہوئی ۔ جو کتاب الطہارة کے ٧٥ ابواب کی شرح پر مشتمل تھی ، بعد ازاں ١٤١٤ھ میں شیخ عبد الحمید نشاطی کی مساعیِ جمیلہ سے یہ شرح تین جلدوں میں شائع ہوئی ۔ جس میں کتاب الطہارة کی شرح مکمل ہوگئی ہے اور کتاب الصلاة کے بھی دوابواب کی شرح موجود ہے ۔ '' غایة المقصود '' کے آغاز میں مصنف نے ایک مبسوط مقدمہ لکھا ہے جو بقول علّامہ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی :'' اپنے مشتملات اور معلومات نادرہ کے مستقل تالیف کی حیثیت رکھتا ہے ۔''
مشہور حنفی عالم دین اور سنن أبی داود کے شارح مولانا خلیل احمد سہارن پوری صاحبِ '' بذل المجہود '' اس شرحِ عظیم سے متعلق رقمطراز ہیں
'' میں نے شیخ ابو الطیب شمس الحق کی شرح مسمی ''غایة المقصود ''کا ایک جزو دیکھا ہے ۔ پس میں نے اسے چھپے ہوئے اسرار کو کھولنے والی ، خزینوں سے معمور پایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ مصنف پر اپنا فضل فرمائے انہوں نے تحقیق کا حق ادا کردیا۔ ''] بذل المجہود : ١/١
ایک دوسرے حنفی عالم اور ہمارے معاصر صاحبِ قلم مولانا محمد عبد المعبود لکھتے ہیں
''غایة المقصود اگر مکمل ہوگئی ہوتی تو سنن ابو داود کے حل کے لیے یہی ایک کتاب کافی وافی ہوتی ،مطبوعہ جزء اوّل کی ابتداء میں ایک طویل مقدمہ ہے ، جس میں سنن ابو داود اور خود ابوداود رحمة اللہ علیہ سے متعلق تمام ضروری باتیں بسط و تفصیل کے ساتھ بیان کردی گئی ہیں ۔ مقدمہ کے بعد اصل کتاب شروع ہوتی ہے جس میں حدیث کے احوال و صفات ، مسائلِ فقہیہ اور ائمہ مجتہدین کے مذاہب اور ان کے دلائل نیز امام ابو داود رحمة اللہ علیہ کے اقوال کے مطالب کا بیان وغیرہ اُمور پر محققانہ بحث کی گئی ہے اور کتاب کی طوالت سے بے نیاز ہوکر شرح کو ہر لحاظ سے کامل و مکمل بنانے کی سعی مشکور کی گئی ہے ۔ '']تذکرہ مصنفین صحاح ستّہ : ٣٥٢
'' غایة المقصود ''کی تلخیص محدث عظیم آبادی نے ''عون المعبود'' کے نام سے کی ،اور یہی وہ مشہورِ عام شرحِ حدیث ہے جو آج ہر اسلامی کتب خانے کی عام زینت ہے ۔ '' عون المعبود '' اپنے سلیس و سادہ طرزِ بیان اور ایجاز وبلاغت کی وجہ سے تمام بلادِ اسلامیہ کے ہر مکتبۂ فکر کے علماء میں معروف و متداول ہے ۔ 
محدث عظیم آبادی کا ایک بہت بڑا کارنامہ حدیث کی مشہور کتاب '' سنن دارقطنی '' کی پہلی مرتبہ طباعت ہے ، وہ بھی تصحیح نسخ اور حل مشکلات کے ساتھ۔ ''التعلیق المغنی علیٰ سنن الدارقطنی '' کو بھی علماء نے بنظرِ استحسان ملاحظہ کیا اور اس کی قدر افزائی فرمائی ۔ ٢٠٠٤ء میں ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد المحسن الترکی کی توجۂ خاص اور شیخ شعیب الارنائوط و دیگر کی تحقیق و تخریج کے ساتھ '' التعلیق المغنی '' کی بہترین طباعت مؤ سسة الرسالہ( بیروت )سے ہوئی ہے ۔
امام ابو الطیب شمس الحق کی دیگر تصانیف میں
٤)  اعلام اہل العصر باحکام رکعتی الفجر (عربی) : جو بقول علّامہ عطاء اللہ حنیف :'' تحقیقاتِ عالیہ اور محدثانہ طرزِ تالیف کا شاہکار ہے ۔''اسماعیل پاشا بغدادی نے '' ایضاح المکنون ''میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ دہلی ، فیصل آباد اور قاہرہ سے طباعت پذیر ہوچکی ہے ۔ اس کے بعض ابواب کا اردو ترجمہ محمدیوسف نعیم نے کیا جوپندرہ روزہ ''صحیفہ اہلِ حدیث ''(کراچی) کی مختلف اشاعت میں طباعت پذیر ہوا(١)۔
٥)  رفع الالتباس عن بعض النّاس (عربی ): امام بخاری پر'' بعض النّاس'' کے اعتراضات کے جواب میں ہے ۔ دہلی ، ملتان ، بنارس اور قاہرہ سے شائع ہوچکی ہے ۔ اس کا اردو مولانا عبد العظیم حسن زئی مدرس جامعہ ستّاریہ کراچی نے کیا ہے جو عنقریب راقم کے تقدیم وتحشیہ کے ساتھ طبع ہوگا۔ انشاء اللہ العزیز
٦)  المکتوب اللطیف الی المحدث الشریف ( عربی ):اس کا تفصیلی ذکر شیخ عبد الحئی الفاسی المراکشی نے اپنی مشہور کتاب '' فہرس الفہارس و الاثبات '' ]٢/٢٨-٢٩[میں کیا ہے۔
٧)  عقود الجمان فی جواز تعلیم الکتابة للنسوان(فارسی ):اس کا عربی ترجمہ دمشق سے شیخ محمد بن عبد العزیز المانع کی تعلیق کے ساتھ شائع ہوا ہے ۔
٨)  الاقوال الصحیحة فی احکام النسیکة (فارسی ): عقیقے کے مسائل پر یہ کتاب محدث عظیم آبادی کی پہلی تصنیف ہے۔ 
٩)   غنیة الالمعی(عربی ) :  '' معجم الصغیر '' للطبرانی کے ساتھ متعدد مرتبہ طباعت پذیر ہوچکی ہے ۔
١٠)  القول المحقق( فارسی ): جانوروں کو خصی کرنے کے جواز میں محدثانہ و فقیہانہ طرزِ تالیف کا شاہکار ہے۔
١١)  تعلیقات علیٰ اسعاف المبطا برجال الموطاء (عربی ):رجالِ موطاء پر امام جلال الدین سیوطی ( م ٩١١ھ) کی کتاب پر محدث ڈیانوی کی تعلیقات ، جس میں سیوطی کے بعض تسامحات پر گرفت کی گئی ہے ۔ 
١٢)  ھدایة النجدین الیٰ حکم المعانقة و المصافحة بعد العیدین(اردو): اس کا ذکر ڈاکٹر مظفر اقبال نے اپنی کتاب '' بہار میں اردو نثر کا ارتقاء ١٨٥٧ء سے ١٩١٤ء تک '' ]٧٣ -٧٤[ میںکیا ہے۔
١٣)  الکلام المبین فی الجہر بالتامین و الرد علی القول المتین(اردو): مسئلہ آمین بالجہر پر ایک حنفی مولف کی تردید میںہے۔
١٤)  التحقیقات العلیٰ باثبات فرضیة الجمعة فی القریٰ( اردو ):اس میں جمعہ فی القریٰ کے مسئلے پر دادِ تحقیق دی ہے ۔ عربی ترجمہ شائع ہوچکا ہے۔
١٥)  فتح المعین فی الرد علی البلاغ المبین فی اخفاء التامین (اردو): مولوی محمد شاہ پنجابی کی تردید میں۔
١٦)فتویٰ ردّ تعزیہ داری (اردو): عربی ترجمہ شائع ہوچکا ہے ۔
١٧)  الوجازة فی الاجازة(عربی ): مولانا بدر الزماں محمد شفیع نیپالی کی تحقیق و تدوین سے شائع ہوا ہے۔
١٨) تنقیح المسائل ( فتاویٰ الشیخ الامام المحدث شمس الحق رحمة اللہ علیہ عظیم آبادی )
مذکورہ بالا کتب مطبوع ہیں جبکہ غیر مطبوعہ کتابوں میں :
١)  ھدیة اللوذعی بنکات الترمذی (عربی ): اس کا ناقص قلمی نسخہ موجود ہے ۔ جس کی تخریج ، تعلیق و تکمیل حافظ الیا س صاحب نے کردی ہے ۔
٢)  الرسالة فی الفقہ ( عربی ): اس کا قلمی نسخہ خدابخش لائبریری پٹنہ میں زیرِ رقم ٣١٨٠/٥ موجود ہے۔
٣)  تذکرة النبلاء فی تراجم العلماء ( فارسی ): اس کا قلمی نسخہ مولانا حکیم سیّد عبد الحئی حسنی لکھنٔوی کے کتب خانے (لکھنؤ) میں موجود ہے ۔
٤)  تعلیقات علیٰ التتبع و الاستدارک(عربی ) : امام دارقطنی کی مشہور کتاب '' التتبع و الاستدراک '' پر تعلیقات۔
٥)  تعلیقات علیٰ اشعة اللمعات ( اردو): شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی '' اشعة اللمعات شرح مشکاة '' پر مختصر حواشی ۔ خدا بخش لائبریری پٹنہ میں قلمی نسخہ موجود ہے ۔
(٦)  فضل الباری شرح ثلاثیات البخاری (عربی)
(٧)  النجم الوھاج شرح مقدمة الصحیح لمسلم بن الحجاج (عربی )
(٨)  تعلیقات علیٰ سنن النسائی (عربی )
(٩)  نخبة التواریخ (فارسی )
(١٠)  نہایة الرسوخ فی معجم الشیوخ (عربی )
(١١)  تفریح المتذکرین بذکر کتب المتاخرین (عربی )
(١٢)  النور اللامع فی اخبار صلاة الجمعة عن النبی الشافع (عربی )
(١٣)  تحفة المتہجدین الابرار فی اخبار صلاة الوتر و قیام رمضان عن النبی المختار (عربی )
(١٤)  غایة البیان فی حکم استعمال العنبر و الزعفران ( عربی )
(١٥) سوانح عمری مولانا عبد اللہ صاحب جھائومیاں الہ آبادی (اردو)
نیز محدث ڈیانوی کے ذخیرئہ تصنیف و تالیف کی دو کتابیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بالیقین نہیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ مرحلۂ طباعت سے گزری تھیں یا نہیں۔ وہ کتابیں حسبِ ذیل ہیں:
١)  المطالب الرفیعة فی مسائل النفیسة(عربی ): اس کا ذکر ''عون المعبود ''میں موجود ہے ۔ نیز شیخ عبد الحئی الفاسی نے '' فہرس الفہارس و الاثبات '' میں اور علّامہ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی نے اپنے ایک مضمون میں اس کا ذکر کیا ہے ۔
٢) فضائل شیخین رضی اللہ عنہما : اس کا ذکرمولانا تمنّا عمادی مجیبی پھلواروی نے اپنی کتاب '' امام طبری '' میں کیا ہے ۔
امام شمس الحق کی تصنیفی خدمات کا حلقۂ فیض و استفادہ بہت وسیع ہے ۔ '' غایة المقصود '' اور '' عون المعبود '' ملّت اسلامیہ کے برسہابرس کے علمی و فکری جمود کے توڑنے کی قوت اجتہاد سے معمور نہایت وقیع علمی کاوش تھی جسے تمام بلادِ اسلامیہ کے ارباب علم و فکر نے بنظر استحسان ملاحظہ کیا۔ان کے اساتذہ سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی اور شیخ حسین بن محسن یمانی نے اپنی تحریروں میں ان کے حوالے دیے۔ معاصرین میں مولانا خلیل احمد سہارن پوری ، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، علّامہ عبد الرحمان مبارک پوری ، مولانا عبد التواب محدث ملتانی وغیرہم نے ان کی تصانیفِ علمیہ سے استفادہ کیا اور اس کے حوالے دیے۔ علمائے عرب میں سے شیخ احمد شاکر مصری ، امام ناصر الدین البانی، شیخ ابنِ باز، شیخ محمد عثمان جمعہ اور ایک کثیر تعداد نے محدث عظیم آبادی کی تصنیفات سے استفادہ کیا۔ عہدِ حاضر میںبریلویوں اور دیوبندیوں کے '' شیخ الاسلاموں '' مفتی محمد تقی عثمانی اور ڈاکٹر طاہر القادری نے اختلافِ فکر و نظر کے باوجود محدث ڈیانوی کے حوالے اپنی کتابوں میں دیئے ہیں۔ 
ہمارے فاضل معاصر مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ، حضرت محدث ڈیانوی کی تصنیفی کاوشوں سے بالخصوص و دیگر علمائے تحقیق کی مساعی سے استفادہ کرنے کے بعد راہِ تحقیق سے آشنا ہوئے ۔ چنانچہ راقم کے نام اپنے ایک مکتوب گرامی میں لکھتے ہیں
'' حضرت محدث ڈیانوی رحمہ اللہ سے میرا تعلق اور عقیدت زمانہ طالب علمی سے ہے ۔ غایة المقصود اور اعلام اہل العصر و غیرہ سے نیز تحفة الاحوذی اور ابکار المنن سے میرے جمود کا بت ٹوٹا ۔ اعلام اہل العصر کو از سر نو تحقیق سے ادارہ العلوم الاثریہ سے طبع کرایا۔ التحقیقات العلیٰ فی فرضیة الجمعة فی القریٰ کو نئی بار زیورِ طبع سے آراستہ کیا ، حضرت موصوف رحمہ اللہ پر کئی اقساط پر مضمون لکھا ۔''
علّامہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ نے تو یہاں تک لکھا ہے 
'' شاید مولانا شمس الحق کے اخلاص کا یہ ثمرہ تھا کہ عون المعبود کے بعد تحفة الاحوذی اور حواشی جدیدہ علیٰ سنن النسائی اور عین الحاجة علیٰ سنن ابن ماجہ ، تنقیح الرواة فی تخریج احادیث المشکوة وغیرہ شروح و حواشی معرضِ وجود میں آگئے اور موجودہ دور کی بہترین شرح مرعاة المفاتیح جس کو ایک حیثیت سے فقہ الحدیث کا دائرة المعارف کہا جاسکتا ہے ، وہ بھی صاحبِ عون المعبود کے حسنات میں ایک ہے ۔'']مولانا شمس الحق عظیم آبادی-حیات و خدمات : ١١
محدث ابو الطیب شمس الحق کی یہ کتابیںمحض بلدئہ ہند ہی سے طبع نہیں ہوئیں بلکہ ان کے بعدان کی متعدد کتب مدینہ منورہ ، بیروت ، دمشق ، قاہرہ وغیرہا سے شائع ہوئیں جو ان کی تصانیفِ علمیہ کی مقبولیت کی ایک واضح و معقول دلیل ہے ۔
امام شمس الحق مسلک و عقیدہ کے اعتبار سے سلف صالحین کی راہ پر گامزن تھے ۔ کتاب و سنّت کے چشمۂ صافی سے اپنے ذہن و دل و دماغ کو تازگی دیتے اور قرآن وحدیث سے ہٹ کر کسی مجتہد و امام کے قول کو ذرا خاطر میں نہ لاتے ۔ جس کا قول کتاب و سنّت کے مطابق پاتے بلا تردد اس کی تائید کرتے چنانچہ وضو میں مسح رأس کے مسئلے میں امام مالک ، مسئلہ جوربین اور عورت کی شہادت فی النکاح کے مسئلے میں امام ابو حنیفہ ، عورت ثیبہ کے لیے شرطِ اذن ولی کے مسئلے میں امام داود ظاہری ، مسح عمامہ کے مسئلے میں امام احمد بن حنبل اور بعض دیگر مسائل میں امام شافعی کی تائید و توثیق کی ہے ۔ جہاں کہیں بھی اختلاف کیا دلیل کی بنیاد پر اور حدودِ ادب میں رہتے ہوئے کیا ۔ اپنی تحریروں میں تمام ائمہ کرام کا ذکر نہایت ادب و احترام کے ساتھ کیا کرتے تھے چنانچہ اپنی مشہور زمانہ تصنیف '' رفع الالتباس عن بعض النّاس '' میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں
''امام شافعی نے بھی قیاس و اصول سے بہت کام لیا ہے بلکہ جیسا احناف نے دعویٰ کیا ہے ممکن ہے مجموعی حیثیت سے ان کے قیاسات کی تعداد امام صاحب سے بڑھ کر بھی ہو مگر اصل اعتراض ان قیاسات پر ہے جو بمقابلہ اخبار ہوتے ہیں اور ان میں امام صاحب کا پلہ ہی بھاری ہوتا ہے ورنہ ہم بھی امام صاحب کے فضائل سے منکر نہیں ہیں اور نہ ہم امام شافعی کو امام ابو حنیفہ پر ترجیح دیتے ہیں اور ایسا ہوبھی نہیں سکتا کیونکہ خود امام شافعی نے اپنے اقرار سے سب لوگوں کو فقہ میں امام صاحب کا عیال قرار دیا ہے اور ایک خلقِ کثیر نے امام صاحب کے فضائل و کمال اور محامد و محاسن کا اعتراف کیا ہے حتیٰ کہ مادحین کی تعداد مذمت کرنے والوں سے ، تحسین کرنے والوں کی تعداد تنقیص کرنے والوں سے ، تزکیہ کرنے والوں کا شمار متہم کرنے والوں سے ، تعدیل کرنے والوں کا عدد جرح کرنے والوں سے زیادہ ہے ۔ پھر آپ کے فضائل کا شہرہ مشارق و مغارب میں ہوچکا ہے اور آپ کے فضل و کمال کے سورج تما م اطراف و جوانبِ ارض کو روشن کرچکے ہیں ۔ حتیٰ کہ ان کا بیان صحرا و بیابانوں کے مسافروں اور گھروں کی پردہ نشیں عورتوں کی زبانِ زد ہوچکا، تمام آفاق کے لوگوں نے ان کو نقل کیا اور اہلِ شام و عراق نے ان کا اقرار و اعتراف کیا ۔ غرض و ہ امام جلیلِ نبیل ، عالمِ فقیہ نبیہ ، سب سے بڑے فقیہ تھے کہ ان سے خلقِ کثیر نے تفقہ حاصل کیا ۔ متورع ، عابد ، ذکی ، تقی ، زاہد فی الدنیا ، راغب الی الآخرة تھے۔
اپنے ورع و زہد کی وجہ سے عہدئہ قضا کو رد کیا اگرچہ اس کو رد کرنے کی وجہ سے بہت ایذائیں برداشت کیں، خلاصہ یہ ہے کہ ان کی طاعات معاصی پر غالب تھیں ، اس لیے جو شخص بھی حسد و عداوت کی وجہ سے آپ کی مذمت کرتا ہے وہ خود آپ کی نہایت شان و علو قدر کی دلیل ہے اور اس سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتاکیونکہ چمگادڑ کی آنکھوں کی چکاچوند سے سورج کی روشنی و نور کو کوئی زوال و نقصان نہیں پہنچتا۔ لیکن باوجود ان سب باتوں کے امام صاحب کے لیے عصمت ثابت نہیں ہوسکتی لہٰذا ان سے بھی خطا و لغزش ہوسکتی ہے۔
ان فضائلِ کثیرہ کے ذکر و اعتراف سے وہ الزامات رفع نہیں ہوسکتے جو امام بخاری  نے امام صاحب پر مخالفتِ کتاب و سنت کے لگائے ہیں، لیکن ان کی بعض لغزشوں کی وجہ سے ان کی شان میں گستاخی و سوئِ ادب کا معاملہ بھی جائز نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ وہ مجتہد تھے اور مجتہد سے خطا و صواب ، لغزش و ثبات دونوں ہی ہوتی ہیں۔ خود امام بخاری کو دیکھیے کہ باوجود اس اختلاف کے انہوں نے امام صاحب کا ادب ملحوظ رکھا اور آپ کا اسم شریف بھی اس لیے نہیں لکھا اور بعض النّاس سے توریہ کیا تاکہ جاننے والے جان لیں اور نہ جاننے والے نہ جانیں اور یہی طریقہ ان سب لوگوں کا ہونا چاہیے جو انصار السنہ ہونے کے مدعی ہیں کہ امام صاحب کے بارے میں کسی قسم کی بے ادبی نہ کریں اور امام بخاری کی وجہ سے وہ امام صاحب کو برا بھلا کہنے کا جواز بھی نہ نکالیں کیونکہ ان دونوں کی مثال ایسی ہے کہ دو شیر آپس میں لڑتے ہوں تو کیا لومڑیوں ، بھیڑیوں کو ان کے درمیان پڑنے کا موقعہ ہے ، یا جیسے دو قوی ہیکل پہلوان آپس میں نبرد آزما ہوں تو کیا عورتوں بچوں کے لیے ان کے درمیان مداخلت کرنے کی کوئی وجہ جواز ہوسکتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ وہ اگر ایسی غلطی کریں گے تو خود ہی ہلاک ہوں گے ۔''(٢
اور یہ جو مولانا خلیل احمد سہارن پوری نے محدث کبیر شمس الحق پر الزام عائد کیا ہے کہ ''انہوں نے ائمہ کرام کی شان میں طعن و تشنیع کی حدود سے تجاوز کیا ہے ۔'' تو ایسا صرف مسلکی عصبیت کی بنا پر کیا ہے ، جہاں تک امام صاحب سے اختلاف کا تعلق ہے تو اس '' جُرم '' میں محدث عظیم آبادی تنہا نہیں بلکہ ان کے ہَمنوا خود امام صاحب کے جلیل القدر تلامذئہ ذی اکرام امام ابو یوسف ، امام محمد ، امام عبد اللہ بن مبارک ، امام زفر رحمہ اللہ علیہم بھی ہیں۔کیا مولانا سہارن پوری کے معتقدین ان کے متعلق بھی یہی رائے دے سکتے ہیں۔ اور ایسا ہی الزام مولانا محمد یوسف بنوری نے بھی محدث عظیم آبادی پر عائد کیا ہے اور ایسا کرنے میں ان پر اپنے اساتذہ کی تائید کا جذبہ کار فرما تھا۔جہاں تک مولانا سہارن پوری کی '' عون المعبود '' سے متعلق اس رائے کا تعلق ہے 
'' ھذا شرح قاصر عن ان یسمیٰ شرحا۔'']بذل المجہود : ١/١
'' یہ شرح ، شرح کہلانے سے قاصر ہے ۔''
یعنی ''عون المعبود'' شرح کہلانے کی حقدار نہیں۔اس رائے کی حقیقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود علّامہ سہارن پوری '' بذل المجہود '' میں '' عون المعبود '' کے حوالے بکثرت دیتے ہیں۔ مولانا عبد المالک آروی اپنے ایک مضمون'' بہار میں علمِ حدیث'' میں '' عون المعبود '' اور ''بذل المجہود '' کاموازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں
''حضرت علّامہ شمس الحق محدث ڈیانوی نے عون المعبود کے نام سے ابو داود کی شرح لکھی ، اس کی دو ضخیم جلدیں میرے پیشِ نظر ہیں ۔اس میں آپ نے ایسے ایسے محدثانہ نکات پیش کیے ہیں کہ بے اختیار زبان سے صدائے آفریں نکلتی ہے ۔ عون المعبود کی اشاعت کے بعد مو لانا خلیل احمد سہارن پوری نے بذل المجہود کے نام سے ابو داود کی شرح لکھی ، جو علمی دنیا میں متداول ہے ، کسی خاص امام کے نظریات کی پابندیاں حریّتِ فکر اور وسعتِ نظر پر جو برا اثر ڈالتی ہیں ان سے عون المعبود کے صفحات منزہ ہیں اور یہی بذل المجہود اور عون المعبود میں مابہ الامتیاز ہے ۔'' ] ماہنامہ '' جامعہ '' دہلی : اکتوبر ١٩٣٤ئ
ہمارے فاضل معاصر اور غیر جانبدار صاحبِ علم ڈاکٹر محمود احمد غازی کی رائے بھی ملاحظہ کیجیے
''مولانا خلیل احمد نے سنن ابو دائود کی شرح بذل المجہود کے نام سے لکھی ۔بذل المجہود بھی پندرہ بیس جلدوں میں ہے ۔عرب دنیا میں کئی بار چھپی ہے ۔مصر ، ہندوستان ،پاکستان اور کئی دوسری جگہوںپر چھپی ہے ۔ یہ سنن ابو دائود کی بہترین شرحوں میں سے ایک ہے ۔ غاےة المقصودکا درجہ تو بلا شبہ بہت اونچاہے ۔ پھر عون المعبود اور پھر بذل المجہود کا درجہ ہے اور پھر باقی شرحوں کا درجہ ہے ۔یہ بڑی جامع شرح ہے ۔ فقہی اعتبار سے اس میں مسائل پر زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ حدیثی اور روایتی مسائل پر عون المعبود میں زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ اور اس طرح یہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں ۔'' ]محاضرات حدیث :٤٣٢
محدث عظیم آبادی کے مسلک و عقیدے کے ضمن میں یہ ذکر بھی خالی از دلچسپی نہیں کہ اسماعیل پاشا بغدادی نے اپنی معروف کتاب ''ایضاح المکنون '']١/١٠١[ میں محدث عظیم آبادی کی کتاب ''اعلام اہل العصر باحکام رکعتی الفجر'' کا تعارف کراتے ہوئے محدث عظیم آبادی کو حنفی لکھا ہے جبکہ جس کتاب کا تعارف کرایا گیا ہے خود اس کے مندرجات محدث موصوف کی حنفیت کی تردید کے لیے کافی ہیں۔ صاحبِ '' معجم المؤلفین '' عمر رضا کحالہ نے بھی صاحبِ''ایضاح المکنون ''کے تتبع میں ایک مقام پر محدث عظیم آبادی کو حنفی لکھا ہے]٩/٦٨[۔
امام ابو الطیب شمس الحق کا علمی مقام بہت بلند تھا ، وہ مرتبۂ اجتہاد و امامت پر فائز تھے ۔ حدیث کی تمام اقسام پر ان کی گہری نظر تھی ، تفسیر و علل کے ماہر تھے ۔ جب علّامہ ثناء اللہ امرتسری اور علمائے غزنویہ کے مابین علامہ امرتسری کی'' تفسیر القرآن بکلام الرحمان '' پر مناقشہ ہوا تو مئی ١٩٠٥ء کو اس مسئلے کے حل کے لیے جلسہ مذاکرئہ علمیہ کے موقع پر تین حَکم مقرر کیے گئے ۔جن میں ایک ممتاز رکن محدث ابو الطیب شمس الحق تھے ۔ بقیہ دو میں سے ایک استاذ الاساتذہ حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری اور دوسرے مولانا شاہ عین الحق پھلواروی تھے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ممدوح کو غیر معمولی علم وفضل سے نوازا تھا۔ علّامہ ابو القاسم سیف بنارسی لکھتے ہیں
'' پرانے رسم الخط عربی غیر منقوط کو آپ بلا تکلف پڑھتے ۔ اکثر کتب پر مفید حاشیے لکھے ۔ قاضی شوکانی سے نیل الاوطار میں حوالہ اسماء رجال میں جو سہو ہوا ، اس کو آپ نے گرفت کرکے حاشیہ پر لکھا ہے ۔ جامع ترمذی مطبوعہ ہند میں جو دوسرے صفحہ پر حدثنا محمد بن حمید بن اسماعیل بجائے محمد بن اسماعیل البخاری طبع ہوگیا ہے ۔ اس فاش غلطی پر سوائے آپ کے اور کسی کو تنبہ نہیں ہوا۔'' ] اہلِ حدیث ( امرتسر) : ٣١ اکتوبر ١٩١٩ئ
محدث کبیر امام شمس الحق کے علمی فضائل و کمالات کا اعتراف ان کے معاصرین نے کیا ، ان کے اساتذہ ان پر فخر کرتے اور تلامذہ اپنی قسمت پر نازاں ہوتے۔ ان کے ایک استاذِ حدیث شیخ الکل سیّد میاں نذیر حسین دہلوی نے اپنے متعدد مکاتیب میں '' جامع الحسنات والکمالات ، الفاضل النحریر ، صاحب التقریر و التحریر ، الحبر الموفق''جیسے الفاظ سے مخاطب کیا۔ ایک دوسرے استاذِ حدیث شیخ حسین بن محسن یمانی انہیں '' شیخ الاسلام و المسلمین ، امام المحققین و الائمة المدققین ، صاحب التالیف المجیدة و التصانیف المفیدة ، اشتھر بالفضائل فی الآفاق ، المحرز قصب الکمال فی مضمار السباق'' جیسے القابات سے متصف فرماتے ۔
محدث ڈیانوی کے ایک معاصر مولانا حکیم ابو یحییٰ محمد شاہجہانپوری اپنی مشہور کتاب '' الارشاد الیٰ سبیل الرشاد ''میں ایک مقام پر رقمطراز ہیں
''یہ کتاب  ] قیام اللیل للمروزی[  اپنے استاد بھائی جن کے ساتھ ہم کو اس نسبت کے حاصل ہونے پر فخر ہے ، شارحِ حدیث جناب مولانا مولوی ابی الطیب محمد شمس الحق صاحب عظیم آبادی سلمہ اللہ ذو الایادی کے پاس دیکھی ۔''] ص:٢٧مطبوعہ مطبع انصاری دہلی ١٣١٩ھ
اور ڈاکٹر محمود احمد غازی ، محدث عظیم آبادی کے علم و فضل کا اعتراف ان الفاظ میں فرماتے ہیں
''میاں نذیر حسین کے دوسرے شاگرد تھے علامہ شمس الحق عظیم آبادی ، یہ اتنے بڑے محدث ہیں کہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کے زما نے میں ان سے بڑا محدث کوئی نہیں تھا ، یا اگر تھے تو ایک دو ہی تھے تو شاید یہ مبا لغہ نہیں ہو گا۔'']محاضرات حدیث : ٤٢٩-٤٣٠
ان علمائے ذی اکرام کے بعد دیگر علمائے معاصرین و متاخرین کے اقوال و آراء کو باعثِ طوالت سمجھتے ہوئے قلم زَد کرتے ہیں۔
متعدد علماء و فضلاء نے محدث ڈیانوی کے بارگاہِ علم و فضل میں اپنی عقیدت کا اظہار عربی ، فارسی اور اردو کے متعدد قصائد میں کیا ہے ۔ جو کہ '' ھدایة الطالبین الیٰ مکاتیب الکاملین'' میں مذکور ہے ، یہ کتاب ١٣١١ھ سے بھی قبل شائع ہوئی تھی ۔ 
شیخ الاسلام امام محمد بن عبد الوہاب نجدی کے پرپوتے شیخ ابو عبد الرحمان اسحاق نجدی ایّام جوانی میں بغرضِ تحصیلِ علم ہندوستان تشریف لائے تھے ۔یہاں انہوں نے شیخ الکل سیّد میاں نذیر حسین ، شیخ حسین یمانی وغیرہم سے کسبِ علم کیا ۔ اسی زمانے میں ڈیانواں بھی تشریف لائے ۔محدث عظیم آبادی کے کتب خانے سے مستفید بھی ہوئے اور محدث موصوف کے فضل و کمال سے انتہائی متاثر بھی ۔ چنانچہ انہوں نے محدث ڈیانوی کی شان میں ایک عربی قصیدہ لکھا تھا جو کہ ''التعلیق المغنی ''( طبع اوّل ) کے آخر میں مطبوع ہے ۔ اس کے علاوہ بھی متعدد قصائد در مدح حضرت ڈیانوی مختلف کتب میں مرقوم ملتے ہیں جن کا احاطہ مقصود نہیں۔
اپنے وقت کی متعدد علمی و دینی تحریکات میں محترم گرامی محدث عظیم آبادی نے نمایاں حصہ لیا۔ ''آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس''( تاسیس دسمبر ١٩٠٦ئ) کے بانی رکن اور اوّلین امین (خازن ) تھے ، اور وفات تک امین رہے۔ تحریک ندوة العلماء کے مویدین میں شمار ہوتا تھا۔ ''مدرسہ اصلاح المسلمین '' پٹنہ کے سکرٹری تھے ۔ '' مدرسہ احمدیہ ''آرہ کے اہم انتظامی رکن اور '' دائرة المعارف النظامیہ '' حیدر آباد دکن کے رکن رکین تھے ۔
محدث ڈیانوی کی پوری زندگی علم حدیث کی نشر و اشاعت میں بسر ہوئی ، آپ کا شمار تیر ہویںو چودہویں کے اکابر محدثین میں ہوتا ہے آپ محض طبقہ محدثین کے علمبردار ہی نہیں بلکہ احادیث و سنن کے عامل بھی تھے ،پیغمبر آخر الزماں ۖ سے وہ قلبی نسبت تھی جس کی مہک سے آپ کے گوشۂ ہائے دل کا کونہ کونہ معطر تھا ،پوری زندگی میں اتباع سنن و آثار کی روح کار فرما تھی باوجود اس کے کہ ایک بہت بڑے خانوادہ کے رکن تھے اور ممدوح کا شمار صوبہ بہار کے اجل رؤسا میں ہوتا تھا مگر مزاج میں کِبر ونخوت کا شائبہ تک نہ تھا ۔ اللہ اور اس کے رسول ۖ سے محبت اور دین سے غیر معمولی شغف نے موصوف کی طبیعت میں عِجز و فروتنی پیدا کردی تھی ۔ مولانا عبد السلام مبارکپوری روایت کرتے ہیں:
'' ١٣٢٨ھ کا ایک واقعہ ہے کہ مولوی محمد صاحب نجدی جو فنونِ ادبیہ کے علاوہ حدیثیہ میں بھی بہت ہی دستگاہ رکھتے تھے ۔ بھوپال سے بعد انتقال شیخ حسین عرب صاحب ڈیانواں تشریف لائے ۔ ان دنوں علّامہ ابو الطیب کو زمینداری کا ایک بہت بڑا مقدمہ ہائیکورٹ میں پیش تھا، مولانا مرحوم اس کے الجھائو میں تھے سبق میں کمی ہوئی تو وہ بگڑ کھڑے ہوئے ، مولانا مرحوم نے معذرت کی اور نقد روپے اور بہت سی کتابیں پیش کیں اور کہا اس وقت مہلت کم ہے انشاء اللہ میں آپ کے حسبِ خواہ پڑھائوں گاوہ بگڑے دل علی الصبح روپیوں کو آپ کے بچھاون کے نیچے اورکتابوںکو کمرے میں رکھ کر چل دیے ، صبح کو بچھاون جھاڑنے کے وقت روپے ملے اور کتابیں ایک طرف رکھی ملیں۔ اتفاقاً مولوی محمد صاحب صادق پور پٹنہ پہنچے اور اس کمترین سے ملاقات ہوئی ۔ دو روز صادق پور میں مہمان رہے کہ علّامہ ابو الطیب بھی پٹنہ پہنچے اور جب مولوی محمد صاحب کی خبر پائی تو مجھے روپے دے کر فرمایا کہ یہ ڈیانواں سے روپے اور کتاب چھوڑ کر چلے آئے ہیں ان کو یہ روپے کسی طرح دیدو ، میں چلنے کے وقت روپے مولوی محمد صاحب کو دینے لگا اور علامہ ابو الطیب کی جانب سے معذرت کی اور اصرار کیا تو بہت ناخوش ہوئے اور مجھ سے فرمایا:  انت بطال اآخذ الادنیٰ ؟ و لم یحصل لی الاعلیٰ ۔'' ] '' اہلِ حدیث '' امرتسر :٢٨ اپریل ١٩١١ئ
علّامہ ثناء اللہ امرتسری محدث ابو الطیب شمس الحق کے حسنِ اخلاق کا حسین مرقع پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں
'' اخلاق کی یہ کیفیت تھی کہ کبھی آپ کی پیشانی پر بل نہیں دیکھا بلکہ حدیث شریف تبسمک فی وجہ اخیک صدقة ( ہنس کر بھائی سے ملنا بھی صدقہ کا ثواب ہے ) پر پورے عامل تھے ۔ میں نے اس حدیث کے عامل علماء کو کم دیکھا ہے ۔''] '' اہلِ حدیث '' امرتسر : ٣١ مارچ ١٩١١ئ
مولانا حکیم سیّد عبد الحئی حسنی لکھنؤی محدث عظیم آبادی کے تذکرہ میں رقمطراز ہیں
'' کان حلیما ًمتواضعاً کریماً عفیفاً ، صاحب صلاح و طریقة ظاہرة ، محباً لاھل العلم ........ و کان یحبنی للّٰہ سبحانہ و کنت احبّہ و کانت بینی و بینہ من المراسلة ما لم تنقطع الیٰ یوم وفاتہ ۔''     ] نزہة الخواطر :٨/١٨٦
امام عبدالجبار غزنوی اپنے مکتوب گرامی بنام امام ابو الطیب شمس الحق مرقومہ ٢٧ ربیع الاول ١٣١١ھ میں لکھتے ہیں 
''معدن محاسن اخلاق و شیم مجمع مکارم اعمال کرم اخ مکرم حب محترم مکرمی مولوی محمد شمس الحق صاحب موفق خیرات و حسنات بودہ معزز دارین و مکرم کونین شد۔''     ] یادگار گوہری : ٤٠-٤١ ط مطبع احمدی پٹنہ ١٨٩٥ء 
عوام الناس کی اصلاح و ہدایت ممدوح کا مطمح نظر تھا اس لیے وعظ و ارشاد میں بڑے ساعی تھے آپ کی نانی بزرگوار فرمایا کرتی
''تم میرے عزیز کے عزیز ہو مگر جس وقت اللہ کی باتیں سناتے ہو اس وقت نہایت بزرگ معلوم ہوتے ہو ۔''      ] یادگار گوہری :٣٩
مولانا ابوعبدالرّحمن محمد اشرف ،محدث عظیم آبادی کے برادر صغیر تھے محدث ڈیانوی کو ان سے بے انتہا محبت تھی ، کبھی سفر و حضر میں جدائی کا موقع نہیں آیا تھا۔ ١٥ محرم ١٣٢٦ھ کو مولانا محمد اشرف نے اس حال میں وفات پائی کہ ان کی اولادوں میں سے کوئی بھی حیّ القائم موجود نہ تھا۔ مولانا محمد اشرف کی وفات پر محدث ڈیانوی کو بے انتہا قلق ہوا ، حتیٰ کہ تین سال دو ماہ ٣ دن بعد خود بھی لحد میں جا اترے ۔ محدث ڈیانوی کی دو بڑی بہنیں تھیں بڑی بہن کا نکاح مولانا حکیم نجابت احمد نگر نہسوی کے ساتھ ہوا اور دوسری بہن کا علّامہ حکیم عبد الباری نگرنہسوی کے ساتھ ہوا جو اپنے عصر کے ماہر طبیب اور علّامہ دہر تھے ۔ مولانا نجابت احمد اور حکیم عبد الباری دونوں سگے بھائی تھے ۔
زمانۂ طالب علمی کے دوران ہی محدث شمس الحق ڈیانوی کا نکاح ١٥ ربیع الاول ١٢٩٤ھ کو شیخ عبد اللطیف صدیقی چھپراوی کی صاحبزادی سے ہوئی ۔ جب آپ کی اہلیہ کا انتقال ہوا تو آپ کا دوسرا عقد بھی شیخ عبد اللطیف ہی کی دوسری صاحبزادی سے ہوا۔ دونوں بیویوں سے اللہ تعالیٰ نے تین بیٹے اور چھ بیٹیاں عطا کیں۔ دو صاحبزادے مولانا حکیم محمد ادریس اور مولانا حافظ محمد ایوب سنِ شعور سے گزرے ، دونوں ہی علومِ دینیہ کے ماہر اور جید عالم وفاضل تھے ۔ اوّل الذکر نے طویل عمر پاکر دسمبر ١٩٦٠ء کو ڈھاکہ میں وفات پائی ۔ جبکہ ثانی الذکر نے ١٩٢٤ء میں صادق پور پٹنہ میں وفات پائی ۔ محدث ڈیانوی کے احفاد میں مولانا عبد اللہ ندوی بن حکیم محمد ادریس ندوہ کے فاضل جید عالم تھے لیکن عین عالمِ شباب میں ١٩٣٩ء کو وفات پائی ۔ جبکہ ایک دوسرے حفید محمد احسن اللہ تھے جو کئی ایک کتب کے مصنف مگر دینی علوم کے فارغ نہیں تھے ۔ انہوں نے ٤ اکتوبر ١٩٩٥ء کو کراچی میں وفات پائی ۔ افسوس صد افسوس محدث ڈیانوی کے اخلاف میں کوئی صحیح معنوں میں ان کا جانشین نہیں بن سکا ، سچ ہے 
قیس سا پھر کوئی اٹھا نہ بنی عامر میں 
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص
محدث کبیر شمس الحق عظیم آبادی نے ١٩ ربیع الاول ١٣٢٩ھ /٢١ مارچ ١٩١١ء کو بروز شنبہ ( منگل ) کو ٦ بجے صبح بعارضہ طاعون وفات پائی ۔ محدث کبیر کی وفات سے برّ عظیم پاک وہند کے دینی حلقوں پر حزن و ملال کی فضا چھاگئی ۔ علّامہ کبیر ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں
''مولانا شمس الحق کے غروب پر جس قدر جماعت اہل حدیث کو صدمہ ہوا۔ اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا عموماً ہر جگہ نماز جنازہ پڑھی گئی ۔ دعا مغفرت کی گئی جو مولانا شمس الحق مرحوم کی قبولیت کی علامت ہے ....... مولانا مرحوم کی جدائی سے ان کے احباب کو جو صدمہ ہوااس کے اظہار کے لیے مولانا عبدالعزیز صاحب رحیم آبادی کا ایک خط نقل کیا جاتا ہے ۔مولانا موصوف فرماتے ہیں 
ِِمیں ڈیانواں گیا تھا شب کو مکان واپس آیا ہوں ۔ انتقال پر ملال مولانا شمس الحق صاحب (غفرلہ اللّٰہ و رحمہ و رضی عنہ ادخلہ جنة نعیم)سے دل پاش پاش ہے ۔ اس وقت میرا حال اس شعر کا مصداق ہے ۔
لگائوں تو کیا دل لگائوں کسی سے؟ 
رہا ہی نہیں دل لگا نے کے قابل 
اس مکان کی کیفیت و حالت بھولتی نہیں ہے ۔آہ کیا تھا کیا ہو گیا ۔
ع ہمرہاں رفتند و خاکستر نشینم کردہ اند ۔اس وقت دل کا حال یہ ہے کہ جو یارو احباب زندہ ہیں غنیمت معلوم ہوتے ہیں ۔ نہ معلوم کون کس وقت ساتھ چھوڑ دے گا جی چاہتا ہے کہ اپنے یاروں سے لپٹ کر خوب روئیں مگر افسوس یاران ہمدم بھی دور ہیں ان کا لقا بھی کب نصیب ہوتا ہے :
فعود و  بی  الیٰ  آثار  لیلیٰ
و  ما  یدری  الغریب  متی  یعود
] '' اہل حدیث '' امرتسر:٢١ اپریل ١٩١١ئ             
علامہ کبیر ثناء اللہ امر تسری نے اپنے  ہفت روزہ اخبا ر '' اہل حدیث'' میں شیخ الاسلام امام شمس الحق عظیم آبادی کی وفات پر تعزیتی شذرہ رقم کیا ۔ جسے یہاں بطور یاد گار من وعن نقل کرتا ہوں 
''مولا نا شمس الحق مرحوم ''
ہر آنکہ زاد بنا چار بایدش نوشید 
ز جام دہر مئے کل من علیہا فان 
پروردگار کے حکم کے آگے چارہ نہیں بڑے بڑے انبیائ، اولیاء ، اصدقا ء کے لیے بھی یہی راہ ہے جو ہم گناہگاروں کے لیے مگر نقصان خصوصاً نا قبل تلافی نقصان پر صدمہ ہونا ایک فطری امر ہے ۔ مولانا شمس الحق مرحوم کو جولوگ جانتے ہیں ان کے لیے تو مرحوم کا نام ہی کافی ہے مگر جو لوگ مغفور کو نہیں جانتے ان کے لیے اتنا بتلانا کفایت کرتا ہے کہ مولانا اس قحط الرجال کے زمانہ میں ایک بے نظیر عالم تھے۔ تصنیف و تالیف مع تدریس آپ کا شغل تھا ۔ باوجود ایک اچھے خاصے رئیس ہونے کے دینی خدمات میں شب و روز مشغول تھے۔ فن حدیث کا کتب خانہ اتنا تھا کہ ندوة العلماء نے جو بنارس میں پرانی کتابوں کی نمائش کی تھی تو مولانا کے کتب خانہ سے بہت سی کتابیں آئیں تھیں ۔ مطبع دائرہ المعارف حیدرآباد دکن بھی مرحوم کا ممنون و مرہون احسان تھا ۔فن حدیث کے جملہ شعبوں سے آپ کو شوق ہی نہ تھا بلکہ شغف تھا ، آپ نے بہت سی کتب حدیث کی شرحیں عربی میں لکھیں غرض اچھے خاصے جامع محدث کی حیثیت سے تھے ۔ موضع ڈیانواں ضلع پٹنہ کے رئیس تھے ، اہل حدیث کانفرنس کے امین اور نعم الامین تھے ۔اخلاق کی یہ کیفیت تھی کہ کبھی آپ کی پیشانی پر بل نہیں آیا بلکہ حدیث شریف '' تبسمک فی وجہ اخیک صدقة '' پر پورے عامل ۔ میں نے اس حدیث کے عامل علماء کو کم دیکھا ہے مرحوم نے ١٢ ربیع الاوّل (١٤مارچ )کو ایک خط لکھا ۔جو مرحوم کی یاد گار کی نیت سے درج کرتا ہوں غالباً اس خط کے بعد مولانا مرحوم نے اپنے قلم سے کوئی خط نہ لکھا ہوگا ۔کیونکہ ١٢ربیع الاوّل کا یہ خط ہے ١٣ کو آپ کی طبیعت ناساز ہوئی ۔خط مذکور یہ ہے :
از عاجز فقیر محمد شمس الحق عفی عنہ۔بخدمت شریف جامع الفضائل محبی مکرمی مولوی ثناء اﷲ صاحب دامت محبتکم۔بعد سلام علیکم ورحمة اﷲ و برکاتہ۔محبت نامہ کارڈ ڈیانواں آکر وصول پایا اور یوم دوم رجسٹری بھی دہلی چاندنی چوک کوٹھی حاجی علی جان مرحوم مولوی حافظ عبد الغفار صاحب کے پاس روانہ کردیا ،اور تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ہم عرصہ سے علیل ہیں اور ضعف غالب ہوا جاتا ہے اور غذا بہت کم ، اس لیے بنظر تبدیل آب وہوا کے ڈیانواں سے مع سامان سفر کے روانہ ہوئے اور پہلے جبل راجگیرپر اقامت چاہتے تھے،پھر بعد یک ماہ کے سفر دہلی وغیرہ کرتے ،اسی خیال سے اپنے طالب العلم سب کو بھی رخصت کردیا اور سب کام کو بند کرکے روانہ ہوئے۔حاجی زکریا خاں صاحب کا اصرار تھا کہ ملک متوسط کی طرف روانہ ہوں، اور انہوں نے کوئی دقیقہ اصرار کا اٹھا نہیں رکھا،مگر چونکہ خیال جبل راجگیر کا تھااس لیے ملک متوسط کی طرف نہیں گئے اور راجگیر کی طرف روانہ ہوئے۔مگر عرصہ ایک سال سے اطراف پٹنہ و بہار میں سخت طاعون ہے اور بہت لوگ نقصان ہوئے۔بعد روانگی میرے معلوم ہوا کہ ڈیانواں میں بھی طاعون آگیا اور بہت زور ہے، مجبوراً نہایت حیرانی و پریشانی کی حالت میں واپس آئے اور اﷲ اﷲ علامت ''یوم یفرّالمرء من اخیہ''کی پایا۔ایسا چھوٹا قریہ اور یہ حالت ،اﷲ تعالیٰ رحم فرماوے اور امن عطا کرے۔ میرے سارے خدام بیمار اور بعض بعض بخوف دوسری دوسری جگہوں میں چلے گئے ،عجیب حالت نازک ہے ، اﷲ تعالیٰ رحم فرماوے۔ میرے مختار و منشی اور جو لوگ کام دفتر کا کرنے والے ہیں سب کے سب چپکے روانہ ہوگئے۔یہ قریہ گویا اس وقت خالی ہے۔ہم اس وقت یہ خط لکھتے ہیں اور طبیعت بالکل حاضر نہیں ہے۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ کوٹھی حاجی علی جان مرحوم کو امین کانفرنس قرار دیا،اس سے کانفرنس کو انشاء اﷲ تعالیٰ فائدہ معتد بہا پہنچے گا،کیونکہ دیانت اور راست بازی میں یہ کوٹھی ضرب المثل ہے ۔کتاب حساب و کتاب کانفرنس اور تحویل اس کی ایک صندوق میں محفوظ ہے اور منشی جی میری کنجی لے کر کہیں ٹل گئے ہیں ، جب انتشار کم ہو اور منشی جی واپس آویں تب ہم باقی تحویل اور کتاب کانفرنس جو صندوق کے اندر ہے دہلی روانہ کردیں گے ۔ انشاء اﷲ تعالیٰ اس وقت جس قدر تحویل باہر دوسری جگہ رکھی تھی یعنی نو سو روپے،اس کو ہم نے بذریعہ نوٹ کے دہلی روانہ کردیا آدھا اس کا روانہ ہوا ہے اور آدھا اس کے بعد آنے رسید کے روانہ ہوگا،آپ اطمینان رکھیں،یہ سب کیفیت ہم نے مکرمی مولوی عبد الغفار صاحب کو بھی لکھ دیا ہے۔اﷲ اﷲ ہر دن دو تین موت ہوتی ہے۔ سارے لوگ جھونپڑی میں بد حواس ہیں۔اشخاص چند اندر مکان کے بستے ہیں۔
یہ قریہ صغیرئہ حکم میں قریہ کبیرہ کے ہے،چونکہ ساری اشیاء ما یحتاج الیہا ہر وقت ملتی ہیں مگر آج کل چونکہ سارے لوگ بھاگے ہوئے ہیں ایک پیسہ کی چینی بھی نہیں ملتی ہے۔اﷲ تعالیٰ رحم فرماوے۔زیادہ و السلام مع الشوق ١٢ ربیع الاول بروز سہ شنبہ۔ محمد شمس الحق عفی عنہ از ڈیانواں ضلع پٹنہ 
اس کے بعد آپ کے صاحبزادے مولوی محمد ادریس صاحب سلمہ کا خط آیا کہ والد کی طبیعت ناساز ہے آپ بذریعہ کارڈ احباب کو دعا کے لیے اطلاع دیں ، باوجود شدّت غم کے میں نے فوراً دو تین گھنٹوں میں کارڈ چھپوا لکھا کر ٣ بجے کلکتہ میل پر روانہ کردیے کہ جس طرح ہو مولانا کے اخص احباب کو اطلاع ہو شاید خدا کسی کی دعا قبول کرلے تو مولانا کو صحت ہوجائے ۔ مگر آہ اس کوہِ غم کو میں کیا بیان کروں واللہ اس وقت یہ مضمون لکھتا ہوں مگر آنکھوں سے آنسو جاری ہیں دل بے تاب ہے ، دم لے لے کر لکھ رہا ہوں ، زبان پر جاری ہے ۔ اللّٰہم اجرنا فی مصیبتنا و اخلفنا خیراًمنہ ۔٢٤ مارچ کے اہلِ حدیث میں دعا کے لیے اعلان لکھا۔ ٢٣ تاریخ کو جبکہ اخبار کی آخری کاپی نصف چھپ چکی تھی ۔ مولوی ادریس صاحب کا خط آیا کہ مولانا ١٩ ربیع الاول ( ٢١ مارچ) کو ٦ بجے صبح انتقال کر گئے ۔ انا للّٰہ و انّا الیہ راجعون ۔اسی وقت بذریعہ خطوط قلمی دہلی ، وزیر آباد ، سیالکوٹ وغیرہ مقامات پر اطلاع دی تاکہ جمعہ کے روز مرحوم کا جنازہ پڑھا جائے ۔ ایک تار ماتمی مرحوم کے پسماندگان کو دیا۔ مضمون ہذا لکھنے کو بیٹھا کہ مولانا شاہ عین الحق صاحب کا آرہ سے خط آیا جس نے دل کو ایسا بے تاب کیا کہ خدا ہی کو معلوم ہے شاہ صاحب نے لکھا:
'' انّا للہ و انّا الیہ راجعون ۔ آج ہندوستان کا آفتاب شمس الحق و الملة و الدین غروب ہوگیا ۔ آہ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ مولانا اب کیا زندگی کا کوئی مزہ ہے ؟''
میں جانتا ہوں میرا یہ بیان مولانا مرحوم کے احباب کو رُلائے گا مگر میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ جس طرح میں نے رو رو کر لکھا ہے میرے رونے میں وہ بھی تو شریک ہوں۔آہ
آ عندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں 
تو ہائے گل پکار میں چلائوں ہائے دل 
آہ شمس الحق تو نے ہم کو کیسا نقصان پہونچایا، اے کاش تو اپنے جیسا اپنی آنکھوں سے کسی کو دیکھ کر ہم سے جدا ہوتا۔ آہ لوگوں کو نہیں معلوم کہ آج اہلِ اسلام کا عموماً اور اہلِ حدیث کا خصوصاً کیسا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔ مگر ہاں خدا کا شکر ہے کہ اس وقت اس بے قراری کی حالت میں میرے دل میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا خطبہ یاد آیا:  من کان یعبد محمداً فان محمد قد مات ۔ ( ما محمد الّا رسول قد خلت من قبلہ الرسل أفان مات او قتل انقلبتم علیٰ اعقابکم ) اس خطبہ سے دل کو قدرے تسکین ہوئی مزید تسکین اس سے ہوئی کہ الحمد للہ مولانا بے خلیفہ نہیں تھے بلکہ آپ کی اولاد میں بڑے صاحبزادے جناب مولوی حکیم محمد ادریس صاحب ماشاء اللہ جامع علوم ہیں خدا سے دعا ہے کہ حکیم صاحب کو مولانا کے نقشِ قدم پر چلنے کی خدا توفیق دے ۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے مولوی محمد ادریس صاحب اپنے والد ماجد کے بڑے تابعدار فرمانبردار رہے ہیں ، آپ پٹنہ میں مطب کرتے ہیں مگر معمولی طبیبوں کی طرح نہیں بلکہ اپنے اشغال کے ساتھ امید ہے اب تو دینی اشغال کو اور بھی ترقی دیں گے ۔
گزشتہ جمعہ کے پرچہ میں معمولی خبر کی صورت میں جنازہ کی درخواست تھی مگر آج ذرا مفصل التماس ہے کہ ناظرین مرحوم کے لیے جنازہ غائب پڑھیں جن کی تحقیق میں جنازہ غائب مسنون نہیں وہ دعا مغفرت سے حق ادا کریں ۔''] '' اہل حدیث '' امرتسر:٣١ مارچ ١٩١١ئ
محدث کبیر ابوالطیب کی وفات پر علماء و فضلا ء ہند نے عربی ،فارسی و اردو میں متعدد قطعات تواریخ وفات موزوں کیے ۔مگر مجھے مولاناابواللیث محمد اسحاق فخر غازی پوری کے ذہن رسا کا موزوں کردہ قطعہ تاریخ وفات بزبان اردو بطور خاص پسند ہے چنانچہ اسے یہاں بطور یاد گار نقل کررہاہوں 
آہ مولانائے شمس الحق محیط علم و فضل 
لے گئے تشریف دنیا سے سوئے ملک عدم 
آپ کی ذات آج تیرہ سواد ہند میں 
علم تفسیر و حدیث و فقہ میں تھی مغتنم 
اب کوئی ایسا نظر آتا نہیں اس ہند میں 
جس کو ارباب عرب لکھیں کہ یا فخر العجم
 اے فلک کس سے چھڑایا تونے ہم کو ہائے ہائے 
ہم غریبوں پر نہ کرنا تھا تجھے ایسا ستم
طالبان علم کس سے پوچھیں معنی حدیث 
اٹھ گیا ہے شارح قول رسول محتشم 
فخر نے کیا خوب لکھی ہے یہ تاریخ وفات
گرچہ ہے بیچارہ پابند غم و درد و الم 
حیف صد حیف اب تو یہ سب بے سروپا ہوگئے 
فضل و تقویٰ و خرد دین و ادب لطف و کرم 
٢٩ ھ ١٣
] '' اہل حدیث '' امرتسر:٢٨ اپریل ١٩١١ئ            

حواشی

١) محمد یوسف نعیم کا مترجمہ مضمون '' فجر کی ٢ رکعت سنت کے بعد لیٹنا '' کے عنوان سے پندرہ روزہ '' صحیفہ اہلِ حدیث '' ( کراچی ) کی پانچ مختلف اشاعتوں میں طباعت پذیر ہوا جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے : ١٥ مارچ ٢٠٠٦ء ، ١٥ اپریل ٢٠٠٦ء ، ١٥ مئی ٢٠٠٦ء ، ١٣ جون ٢٠٠٦ء اور یکم ستمبر ٢٠٠٦ئ۔
٢) '' رفع الالتباس '' کی اس عربی عبارت کا ترجمہ ایک حنفی عالم مولانا احمد رضا بجنوری کے قلم سے ہے ۔ ملاحظہ ہو : انوارالباری ٢/٢٢٩-٢٣٠۔


یہ مقالہ کتابی سلسلہ ’’ الانتقاد ‘‘ کراچی شمارہ خاص ’’ امام ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ اگست 2010 میں طبع ہوا ہے ۔



1 comment:

  1. Assalam o Alaikum wa Rahmatullah wa barakatoho,
    Muhtram Shaikh! sb I am student of islamic studies in Srgodha University.The topic of my thesis for Phd is" Uloom ul Quran wa Tafseer ul Quran pr ghair matboa urdu mwad" plez guide and send me the relavent material.I will pray that Allah Taala succeed you in this world and the world after,forgive all your mistakes.
    yours sincerely,
    Rafiuddin
    Basti dewan wali st. Zafar bloch old Chiniot road Jhang saddar
    03336750546 - 03016998303 Email address drfi@ymail.com

    ReplyDelete